پشاور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پارٹی کارکنوں کی مبینہ گرفتاریوں اور انھیں ہراساں کرنے کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاج کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ پشاور میں قائم ان کے سوشل میڈیا دفتر میں نامعلوم افراد نے داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی ہے۔
تنظیم کے سوشل میڈیا رضا کار سید فرقان کاکا خیل کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ذاتی دفتر میں پی ٹی آئی کو سوشل میڈیا پر پرموٹ کرنے کیلئے رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پیر کی صبح جب وہ اپنے دفتر میں داخل ہوئے ہو تو صورت حال کچھ مختلف تھی اور نامعلوم افراد نے ان کے دفتر میں داخل ہوکر ان کا کیمرہ اور ان کے کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک سمیت دیگر آلات نکال لیے تھے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی میڈیا دفتر نے واقعے کی بھرپور مزمت کرتے ہوئے کہا کہ فرقان کاکا خیل خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیکریٹری ہیں اور نامعلوم افراد نے ان کے دفتر سے 2 ڈی ایس ایل آر کیمرہ اور ان کے کمپیوٹر کے آلات نکال لیے۔
پی ٹی آئی کا اسلام آباد اور کراچی میں احتجاج کا فیصلہ
اس سے قبل پی ٹی آئی نے پارٹی کارکنوں کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے اور انھیں گرفتار کرنے کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاج کا فیصلہ کیا تھا۔
خیال رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے والے صحافی طحہٰ شکیل صدیقی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
ڈان کو حاصل ہونے والی درخواست کی کاپی کے مطابق صحافی اور ‘ورلڈ از ون نیوز’ کے بیورو چیف طحہٰ صدیقی نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے انہیں فون کال کے ذریعے ہراساں کیا۔
یاد رہے کہ حال ہی میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف منظم مہم میں ملوث افراد کی نشاندہی کرتے ہوئے کریک ڈاؤن کا آغاز کیا ہے۔
ایف آئی اے حکام نے ڈان سے گفتگو میں کہا کہ ‘ہم نے ایسے درجنوں مشتبہ افراد کی نشاندہی کی ہے جو افواج پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر منظم مہم چلانے میں مصروف تھے، ان میں سے چند افراد کو تحقیق کے لیے حراست میں بھی لیا گیا ہے’۔
واضح رہے کہ ان کارروائیوں کا حکم ایک ہفتہ قبل وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے دیا گیا تھا۔
چوہدری نثار علی خان نے یہ احکامات 10 مئی کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے ڈان اخبار کی رپورٹ کی تحقیقات کے لیے قائم کمیٹی کے فیصلے پر کی گئی ٹوئٹ کو واپس لینے کے بعد انٹرنیٹ پر شروع ہونے والے تنقید کے سلسلے کا نوٹس لیتے ہوئے جاری کیے تھے۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس کریک ڈاؤن کے دوران نہ صرف اپنے بلکہ حکمراں جماعت کے حامیوں کی گرفتاری پر بھی آواز بلند کی گئی۔
‘ان کارروائیوں کو روکا جائے’
اس سے قبل سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ترجمان پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ‘انتظامیہ کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ان کارروائیوں کو یہیں روک دیں اور آزادی اظہار رائے اور پاکستان کے آئین کا احترام کریں’۔
پی ٹی آئی کے رہنما عمران اسماعیل کی جانب سے بھی یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم کے رکن اویس خان کو سائبر کرائم قوانین کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔
ترجمان پی ٹی آئی فواد چوہدری نے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے؟
فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ‘وزیر داخلہ چوہدری نثار کے کام سے پاکستان کو نقصان پہنچے گا’۔
پاکستان تحریک انصاف نے دھمکی دی ہے کہ پارٹی ورکرز کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کے خلاف پارٹی مختلف شہروں میں احتجاج کرے گی۔
اس رپورٹ کی تیاری میں پشاور سے ڈان نیوز کے نمائندے رحیم اللہ شاہ نے مدد فراہم کی