اسلام آباد : پا کستان کی وفاقی کابینہ نے عدالتی اصلاحات کے لیے قانون سازی کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت کسی بھی معاملے پر ازخود نوٹس لینے کا فیصلہ سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز کریں گے۔ وفاقی کابینہ نے خصوصی اجلاس میں عدالتی قانون میں اصلاحات کے لیے قانون سازی کے لیے بل کے مسودے کی منظوری دی جس کا اعلان وزیراعظم شہباز شریف نے دن کو اپنے خطاب میں کیا تھا۔
بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کریں گے۔ از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق حاصل ہوگا اور اپیل دائر ہونے کے 14 روز کے اندر درخواست کو سماعت کے لئے مقرر کرنا ہوگا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے بروز بدھ 29 مارچ کو اراکین کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ جس میں عدالتی اصلاحات ترمیمی بل کی منظوری دی جائے گی۔اجلاس کی صدارت چیئرمین کمیٹی محمود بشیر ورک کریں گے۔
حکومت نے چیف جسٹس کے 184/3 کے تحت ازخود نوٹس کے اختیار پر قانون سازی اورسوموٹو ایکشن کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ایک ایسے وقت میں جب قومی اسمبلی میں اپوزیشن بھی موجود نہیں اور حکومت کے پاس قومی اسمبلی کے ایوان میں دو تہائی اکثریت بھی موجود نہیں ہے تو حکومت اس حوالے سے قانون سازی کیسے کر سکتی ہے۔ بالخصوص جب آئین کے آرٹیکل 184 کے تناظر میں ترامیم لائی جارہی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور محسن شاہ نواز رانجھا کا کہنا ہے کہ حکومت آئینی ترمیم نہیں کر رہی بلکہ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کرتے ہوئے 184(3) کے تحت چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کر رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت دونوں ایوانوں میں حکمران اتحاد کے پاس کوئی بھی قانون پاس کرنے کے لیے مطلوبہ تعداد میں ارکان موجود ہیں۔پارلیمانی امور کے ماہر اور سابق سیکرٹری سینیٹ افتخار اللہ بابر نے کہا کہ ایوان میں اپوزیشن کی غیر موجودگی میں کوئی بھی ایسا بل جو عدلیہ سے متعلق اور ایسے وقت میں کیا جا رہا ہو جب حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی جاری ہو ایک متنازع عمل ہوگا،یہ بل سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جائے گا اور اسی بنیاد پر کالعدم قرار دے دیا جا سکتا ہے کہ بل پر پارلیمان کا حقیقی ویژن اپلائی نہیں کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ اخلاقی طور بھی اتنا بڑا پالیسی فیصلہ ایسے ایوان سے منظور کروانا درست نہیں ہوگا جس میں اپوزیشن برائے نام ہے۔