تحریر: محمد عمیر دبیر
سن 1978 میں جامعہ کراچی میں اے پی ایم ایس او کی بنیاد رکھی گئی، جس کا مقصد وہاں مہاجر (اردو اسپیکنگ) طلبہ کے ساتھ ہونے والا استحصال تھا، عزیز آباد سے تعلق رکھنے والے لڑکے الطاف حسین کو جب ایم ایس سی میں داخلہ نہیں ملا تو انہوں نے اس کے خلاف ایک مہم چلائی جس میں 70 طالب علم شامل ہوئے۔
اس دوران یہ طالب علم ایڈمن آفس کے باہر آکر بیٹھ جاتے اور داخلہ حاصل کرنے کے لیے احتجاج ریکارڈ کرواتے، دن گزرتے رہے آہستہ آہستہ طالب علموں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا، ابتدائی دنوں میں تو داخلے کے لیے صرف مہاجر ہی تھے تاہم وقت کے ساتھ اس مظاہرے میں پختون ، سندھی اور دیگر قومیتوں کے طالب علم بھی شامل ہوگئے جن کے ساتھ انتظامیہ نے امتیازی سلوک برتا ہوا تھا۔
بانی ایم کیو ایم اپنی کئی تقاریر میں اے پی ایم ایس او کے قیام کی وجوہات بیان کرچکے ہیں، جن کے مطابق اس تنظیم کی بنیاد کا خیال انہیں اُس وقت آیا کہ جب وہ انٹر کے امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد یونیورسٹی کی سطح تک پہنچے، اُن کے مطابق جب داخلہ لینے کےلیے فارم حاصل کیا اور جب اسے بھر کر جمع کروانے گئے تو کھڑی کے دوسری طرف بیٹھے یونیورسٹی عملے نے نام ، ولدیت اور قومیت دریافت کی۔
بانی ایم کیو ایم نے اپنی کئی تقاریر میں بیان کیا ہے کہ انہوں نے نام ، ولدیت سے تو آگاہ کیا مگر قومیت کی جب بات آئی تو انہوں نے پاکستانی لکھا جس پر انتظامیہ کے افسر نے بولا کہ قومیت سے مراد (پنجابی، پختون، سندھی، بلوچی) وغیرہ ہے، اس سوال کے جواب میں الطاف حسین نے کہا کہ چونکہ میرے والدین پاکستان کے نام پر یہاں آئے تھے اس لیے میں نے پاکستانی لکھا ، اسی کے ساتھ جواب آیا کہ ’اوہ‘ تم تو مہاجر ہو۔
داخلہ فارم بھر دیا گیا پہلے سیمسٹر کا آدھا وقت گزر گیا مگر شعبے کی طرف سے کلاس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی، اسی دوران انہوں نے اپنے ساتھ مل کر اس عمل کے خلاف مہم چلائی تو اسی دوران اعلیٰ حکام نے الطاف حسین کو مذاکرات کی دعوت دی اور خالی انہیں کلاس میں بیٹھانے کی رضامندی ظاہر کی تاہم انہوں نے اس پیش کش کو مسترد کیا، جس کے نتیجے میں انتظامیہ کو ہار ماننی پڑی اور تمام 70 طلبہ کو بغیر سال ضائع کیے کلاس میں بیٹھنے اور پرچہ دینے کی اجازت دی گئی۔
اس کامیابی کے اُس وقت کے نوجوان نے یونیورسٹی ہاسٹل میں کمرہ حاصل کرنے کی درخواست دی، چونکہ اُس وقت مقبولیت خاصی ہوچکی تھی اس لیے انتظامیہ نے فوری رضا مندی ظاہر کی اور کمرہ دے دیا، ہاسٹل کے جس کمرے میں الطاف حسین کو جگہ دی گئی وہاں پہلے سے ایک مذہبی جماعت کے کارکن رہائش پذیر تھے جنہوں نے مزاحمت کی اور کمرے سے باہر نکال دیا۔
ایسی صورتحال کے بعد الطاف حسین نے اپنا ساتھ دینے والے ساتھی طالبِ علموں سے مشورہ کیا اور طلبہ تنظیم کی بنیاد کا فیصلہ کیا، جس کے بعد آل پارٹی مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس تنظیم کو بنانے کے اغراض و مقاصد یہ تھے کہ اب نئے آنے والے کسی بھی طالب علم کو ماضی کی طرح مشکلات پیش نہ آئیں تاہم اگر کسی بچے کو مشکل پیش آئے تو تنظیم کے افراد اُس کی مدد کریں۔
وقت گزرتا رہا اے پی ایم ایس او دن بہ دن تیزی سے مقبول ہوتی رہی اس دوران کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنظیم کے اراکین کو زدوکوب بھی کیا گیا اور امتحانات کے وقت بھی تنگ کیا گیا تاہم اس جماعت نے اپنی حکمت علمی طے کی اور یونیورسٹی میں بیٹھنے کے لیے ایک مقام منتخب کیا جسے آج کل یونیورسٹی میں (لابی) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔