ہمارے اردگرد کچھ ایسے دالخراش واقعے پیش آتے ہیں جن سُن کر طبیعت مایوس اور رنج و غم کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے کچھ واقعات تو سُنتے ہوئے آنکھیں اپنا صبر کھو دیتی ہیں جس کی وجہ سے اشک باہر نکل آتے ہیں، اس قسم کا ایک واقعہ آپ کی نظر کرنے جارہا ہوں۔
ایک بچی پیاس سے بلکتی تڑپتی رہی ایسا نہیں کہ اُس کے والد یا چچا نے اس معاملے میں کچھ نہیں کیا انہوں نے کوشش کی بہت کوشش کی مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
یہ بچی جس کا فرضی نام لکھنے کی کوشش کی مگر جسارت نہ کرسکا نے بہت اچھا بچپن گزارا، والد اور چچا کی لاڈلی سب کی آنکھوں کا تارہ تھی جہاں بابا جانے کا کہیں اُن کے پیچھے لگ جاتی تھی۔
بابا اور چچا کسی کام سے روانہ ہورہے تھے تو اس نے بھی ضد ٹھان لی، کٹھن سفر اور مسافت کی وجہ سے لے جانے میں پریشانی ضرور ہوئی مگر نصیب کو منظور تھا وہی ہوا۔
وقت تیزی سے گزرا والد اور خانوادے کے دیگر لوگ مقامِ منزل پہنچے، جس کام کی غرض سے گئے تھے وہ شروع کیا، چٹیل میدان اور گرم تپتی زمین سے بچوں کو ہروقت پانی کی ضرورت رہتی جبکہ کھانے پینے کے نامناسب انتظامات بھی شدید تکلیف دہ تھے۔
دن گزرنا شروع ہوئے روز نئی کرنوں کے سورج کا انتظار رہتا، رات کھلے آسمان تلے گزارنی پڑتی مگر معاشرے میں نفسہ نفسی کا یہ عالم کسی نے پریشانی تک پوچھنا گوارا نہیں کی۔
ایک روز فاطمہ کے چچا اٹھے اور چل دیے کچھ دیر گزری تھی کہ خبر آئی ان پر قاتلانہ حملہ ہوگیا اور وہ دنیا سے کوچ کرگئے، گھر سے نکلے لوگوں پر یہ خبر پہاڑ کی طرح ثابت ہوئی مگر کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی نے اپنے غم کی شدت کا اظہار نہیں کیا۔
پیاس سے بلکتے بچوں کی تڑپ بابا سے برداشت نہ ہوئی تمام خدشات کے باوجود وہ فیصلہ کر کے نکلے، فاطمہ نے مخاطب کر کے پوچھا بابا کہاں جارہے ہیں؟ بابا نے جواب دیا پانی لینے اُس پر فاطمہ بولیں کہ عباس چچا بھی تو گئے ہوئے ہیں آپ ہمیں اکیلے چھوڑ کر نہ جائیں۔
چونکہ بابا فیصلہ کرچکے تھے اس لیے انہوں نے بچی کو بہلایااور خطرات سے لڑنے کے لیے نکل گئے کیونکہ کوئی بھی والد اپنی اولاد کے معاملے میں ہر قسم کے خوف اور آفت کا مقابلہ کرلیتا ہے۔ بابا کے باہر جاتے ہی خبر آگئی کہ ان پر بھی قاتلانہ حملہ ہوگیا۔
یہ سچا اور ذہنوں پر نقوش چھوڑ دینے والا واقعہ اب تک بہت دلجمعی کے ساتھ پڑھا گیا ہوگا مگر جب اس واقعے کی مزید تفصیل تحریر کروں گا تو بہت سے لوگوں کے دماغوں سے اس تحریر کا اثر زائل ہوجائے گا۔
ہم نرم دل اور روح رکھنے والے لوگ اس طرح کے واقعات سُن پڑھ کر کانپ جاتے ہیں کیونکہ ہمارے اندر انسانیت ہے مگر میں جب آپ کو بتاؤں گا یہ کربلا کی کہانی ہے تو بہت سارے لوگوں کا عجیب ردعمل ہوجائے گا۔