متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی انتخابی مہم زوروں پر جاری ہے اور ٹاؤنز کی سطح پر جلسے بھی منعقد کیے جارہے ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کی مرکزی قیادت نے اب تک متعدد بار اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ اس بار اُسی حکومت کو سپورٹ کریں گے جو آئین میں ترمیم کر کے صوبائی خود مختاری (اٹھارویں ترمیم) کو ختم کرے گی۔
سندھ میں ممکنہ طور پر پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف بننے والے گریڈ الائنس جس میں ن لیگ، ایم کیو ایم، جے یو آئی، اے این پی، جی ڈی اے سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں، یہ تمام مشترکہ حکمت عملی کے تحت الیکشن لڑیں گی۔
اس الائنس کا سب سے اہم مقصد سندھ میں پیپلزپارٹی کے زور کو ختم کر کے وزیراعلیٰ کا راستہ روکنا اور اپنے منتخب شخص کو وزیر اعلیٰ لانا ہے اور یہ کس جماعت سے ہوگا، اس بارے میں ابھی نہ کچھ طے ہوا اور نہ ہی کسی جماعت نے تذکرہ چھیڑا۔
مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کا آئندہ عام انتخابات کیلیے اتحاد تو حتمی مراحل میں داخل ہوچکا ہے، جس کے تحت ایم کیو ایم نے وزارتوں کا مطالبہ نہیں کیا البتہ آئین میں تین ترامیم کا مطالبہ کیا ہے۔ کنونیئر متحدہ اور سینئر ڈپٹی کنونیئر بھی برملا کہہ چکے ہیں کہ اس بار وفاق میں اُسی جماعت کو سپورٹ کریں گے جو حکومت میں آکر اٹھارویں ترمیم ختم کرے گی۔
ایم کیو ایم کون سی تین ترامیم چاہتی ہے؟
ایم کیو ایم پاکستان کی مرکزی قیادت اور بالخصوص سینئر ڈپٹی کنونیئر نے اس حوالے سے واضح طور پر صورت حال کھول کر بیان کردی اور آئین کی اُن تین ترامیم کا تذکرہ کردیا جو وہ چاہتے ہیں یا جس کی بنیاد پر وفاق میں اتحاد کریں گے۔
مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ ’پہلی ترمیم بلدیاتی حکومت کے اختیارات اور محکمے آئین میں واضح طور پر لکھے جائیں، قومی معاشی کمیشن میں اضلاع کے مالیاتی اختیارات واضح کیے جائیں‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہم آئین میں تیسری ترمیم یہ چاہتے ہیں کہ جب تک بلدیاتی حکومت کے انتخابات نہ ہوں اُس وقت تک عام انتخابات کا انعقاد نہ کروایا جائے‘۔
ان تینوں ترامیم کا براہ راست تعلق اٹھاویں ترمیم سے ہے۔
اٹھارویں ترمیم کیا ہے؟
اس ترمیم کے تحت صوبائی خود مختاری کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اس کے تحت آرٹیکل 70، 142، 143، 144، 149، 158، 160، 161، 167، 172، 232، 233 اور 234 کو جزوی یا مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔
بجلی کی پیداوار کا معاملہ مکمل طور پر صوبائی اختیار میں دیا گیا، b. قومی فنائنس کمیشن ، قدرتی گیس، صوبائی قرضہ جات، ہنگامی صورت حال کا نفاذ اور دیگر قانون سازی جیسے معاملات کو صوبائی اختیار میں دے دیا گیا ہے۔
ایم کیو ایم مذکورہ بالا نکات میں ترمیم اور تبدیلی چاہتی ہے۔
اٹھارویں ترمیم کی دیگر تبدیلیاں
پاکستانی آئین میں اٹھارویں ترمیم 8 اپریل 2010 کو قومی اسمبلی نے منظور کی اور اُس وقت آصف علی زرداری صدر تھے۔ حیران کن طور پر اُس وقت کی ایم کیو ایم نے اٹھاریوں ترمیم کی کھل کر حمایت کی اور اسے دور رس قرار دیا تھا۔
اس ترمیم کے تحت صدر نے اپنے تمام ایگزیکیٹو اختیارات پارلیمان کے سپرد کردیے تھے اور لیڈر آف دی ہاؤس یعنی وزیر اعظم صدر مملکت سے زیادہ بااختیار ہوگئے تھے۔
اسی ترمیم کے تحت صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخوا رکھا گیا گیا۔ وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو دیے گئے۔
اس ترمیم کے تحت 1973 کے آئین میں تقریبا 100 کے قریب تبدیلیاں کی گئی ہیں جو آئین کے 83 آرٹیکلز پر اثر انداز ہوتی ہیں ، متاثرہ آرٹیکلز میں 1، 6، 10، 17، 19، 25.27، 29، 38، 41، 46، 48، 51، 58، 62، 63، 70، 71، 73، 75، 89، 90، 91، 92، 99، 100، 101، 104، 105، 112، 114، 122، 129، 130، 131، 132، 139، 140، 142، 143، 144، 147، 149، 153، 154، 155، 156، 157، 160، 167، 168، 170، 171، 172، 175، 177، 193، 194، 198، 199، 200، 203، 209، 213، 215، 216، 218، 219، 221، 224، 226، 228، 232، 233، 234، 242، 243، 246، 260، 267، 268، 269 اور 270 شامل ہیں۔
اس ترمیم کے ذریعے فوجی آمر جنرل ضیاالحق کے دور کی گئی ترامیم کو تقریبا ختم کیا گیا، جنرل ضیا کے دور میں ترمیم کے تحت 1973 کے وفاقی آئین میں 90 سے زیادہ آرٹیکلز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔
اسی ترمیم کے تحت ایک اور فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں کی گئی 17ویں آئینی ترمیم کے تحت ہونے والی تبدیلیوں کو بھی قریب قریب ختم کر دیا گیا۔
دو صوبہ جات کے نام کے انگریزی ناموں کے سپیلنگز میں تبدیلی کی گئی، جس کے تحت Baluchistan کو تبدیل کر کے Balochestan اور Sind کو Sindh کیا گیا ہے۔ اس تبدیلی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی البتہ آئینی ترمیم کے لیے قائم کمیٹی کے صوبہ سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین نے کہا کہ اس تبدیلی کا مقصد برطانوی راج کے دور میں استعمال شدہ ناموں سے چھٹکارا پانا تھا۔
اٹھاویں ترمیم کی تیسری تبدیلی یہ تھی کہ 1973 کے آئین میں شامل آرٹیکل 6 ریاست اور آئین سے غداری میں ملوث افراد کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی تھی، 18ویں ترمیم کے تحت اس میں مزید تبدیلی کر کے آرٹیکل 2۔6 الف کا اضافہ کیا گیا ہے۔ جس کے تحت آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی میں ملوث افراد کو سپریم کورٹ سمیت کوئی بھی عدالت معاف نہیں کر سکتی ، جیسا کہ ماضی میں دیکھا گیا تاہم ترمیم کے بعد آئینی طور پر مسقبل میں مارشل لا کا راستہ بھی بند کردیا گیا۔
اسی طرح آرٹیکل 25 الف کا اضافہ کر کے 5 سے 16 برس کی عمر تک تعلیم کی لازمی اور مفت فراہمی کو یقینی بنانے، آرٹیکل 38 کے تحت صوبائی اکائیوں کے درمیان موجود وسائل اور دیگر خدمات کی غیر منصفانہ تقسیم کا خاتمہ کیا گیا ۔
آرٹیکل 58 (2) بی کا مکمل خاتمہ کیا گیا کیونکہ اس کے تحت صدر کو پارلیمان تحلیل کرنے کا اختیار دیا گیا تھا جس سے پارلیمانی نظام حکومت صدارتی نظام حکومت میں تبدیل ہو کر رہ گیا تھا۔
ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کی گئی ہے، پہلے یہ اختیار صرف صدر مملکت کو حاصل تھا، اب اس کا اختیار جیوڈیشل کمشن اور پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی کے سپرد کیا گیا۔
اس ترمیم کے تحت صوبائی خود مختاری کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اس کے تحت آرٹیکل 70، 142، 143، 144، 149، 158، 160، 161، 167، 172، 232، 233 اور 234 کو جزوی یا مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔
بجلی کی پیداوار کا معاملہ مکمل طور پر صوبائی اختیار میں دیا گیا، b. قومی فنائنس کمیشن ، قدرتی گیس، صوبائی قرضہ جات، ہنگامی صورت حال کا نفاذ اور دیگر قانون سازی جیسے معاملات کو صوبائی اختیار میں دے دیا گیا ہے۔
اس میں سب سے اہم معاملہ ہنگامی صورت حال نافذ کرنے کے متعلق ہے۔ اب ہنگامی صورت حال کا نفاذ صدر اور گورنر سے لے کر صوبائی اسمبلی کو دے دیا گیا ہے۔
ایک اور بہت بڑی تبدیلی یہ کی گئی کہ آرٹیکل 142 ب اور ج کے تحت صوبائی اسمبلیوں کو کریمینل قوانین، طریقہ کار اور ثبوت اور شہادت جیسے قوانین کا اختیار دیا گیا ۔ آرٹیکل 280 الف الف کے تحت موجودہ قوانین اس وقت تک نافذ العمل رہیں گے جب تک کہ متعلقہ صوبائی اسمبلیاں ان قوانین کے بدلے میں نئے قوانین پاس نہیں کرتیں۔)
اس ترمیم کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے پارلیمانی نظام حکومت کو واپس لاگو کیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 46، 48، 75، 90، 91، 99، 101، 105، 116، 129، 130، 131، 139، 231 اور 243 میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
مختلف تبدیلیوں کے ذریعے صدر کو حاصل اختیارات میں خاطرخواہ تبدیلی کی گئی۔
جس کے بعد صدارتی اختیارات، عوام کے منتخب و نمائندہ وزیر اعظم، پارلیمان، صوبائی اسمبلیوں کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔ ان تبدیلیوں کا کیا اثر پڑا ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ پہلے وزیر اعظم پر یہ فرض تھا کہ وہ کابینہ کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں سے صدر کو آگاہ کرے اور ضرورت پڑنے پر صدر کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ ان فیصلوں پر نظر ثانی کے لیے انہیں جزوی یا کلی طور پر منسوخ کر دے، اب ایسا نہیں ہو سکتا۔
جبکہ اس سے پہلے اہم عوامی أمور کے لیے ریفرنڈم کے انعقاد کا اختیار صرف صدر مملکت کے پاس تھا، اب یہ اختیار صدر سے واپس لے کر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے وزیر اعظم کو منتقل کر دیا گیا ہے۔
کیا اٹھارویں ترمیم کے تین نکات کی تبدیلی ممکن ہے؟
سیاسی مبصرین اور صحافیوں سے جب اس ممکنہ تبدیلی کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے اسے ممکن قرار دیا اور کہا کہ ’اگر اکثریتی حکومت آجاتی ہے تو پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ سے یہ ترمیم ممکن ہے، سینیٹ میں پی ٹی آئی کے اراکین سینیٹ کی تعداد بھی شاید اٹھارویں ترمیم کیخلاف ووٹ دے‘۔