اسلام آباد: نقیب اللہ محسود قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ملزم کی فوری گرفتاری کا حکم دیا اور ازسرنو تفتیش کے لیے نئی جے آئی ٹی تشکیل دی۔
قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود قتل کیس میں مطلوب سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت میں پیش ہوئے، اس موقع پر سپریم کورٹ کے باہر صبح سے ہی سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اس دوران سپریم کورٹ کے مرکزی دروازے پر ایک سفید رنگ کی گاڑی رکی جس میں سے محافظ اترے اور پھر ماسک لگا شخص عمارت کے احاطے میں داخل ہوا۔
Here comes the man with all his legal concessions, his privileges, his perks. Rao Anwar, the man. Now begins the drama of him being treated as per the law. Laughable. pic.twitter.com/vJFmU5PavO
— Syed Talat Hussain (@TalatHussain12) March 21, 2018
اس دوران ان کے ساتھ پولیس افسران اور اہلکاروں کی بڑی تعداد موجود تھي،انسداد دہشت گردی سکواڈ کے اہلکار بھی راؤ انوار کے ہمراہ تھے۔ راؤ انوار کي عدالت ميں پیشی سے قبل اور بعد احاطہ عدالت ميں غير معمولی انتظامات کئے گئے ہيں اور سيکيورٹی سخت کردی گئی تھی۔
عدالت میں پیشی کے موقع پر انسداد دہشت گردی اسکواڈ کے اہلکار بھی راؤ انوار کے ساتھ تھے۔ سفید رنگ کی گاڑی راؤ انوار کو سپریم کورٹ کے مرکزی دروازے تک لائی۔ راؤ انوار چہرے پر ماسک لگا کر عدالت پہنچے۔
راؤ انوار نے احاطہ عدالت میں اعلان کیا کہ میں نے عدالت کے سامنے سرینڈر کر دیا، یہ اعلان سُن کر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے کوئی احسان نہیں کیا، ورنہ آپ کو گرفتار کیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اتنے دن کہاں چھپے رہے؟ جبکہ آپ تو بہادر اور دلیر افسر تھے۔ راؤ انوار نے کہا کہ مجھے خطرات تھے جس کا درخواست میں ذکر بھی کیا۔
چیف جسٹس نے جواب دیا کہ آپ کو یقین دہانی کروائی تھی پھر بھی عدالت پر اعتماد نہیں کیا۔ بار بار مہلت دینے کے باوجود آپ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کی ازسرنو تفتیش کے لیے نئی جے آئی ٹی بنائیں گے۔ کمیٹی میں کس کو شامل کرنا ہے پہلے مشاورت کریں گے۔
چیف جسٹس نے جے آئی ٹی میں خفیہ ایجنسی کے نمائندوں کو شامل کرنے کی راؤ انوار استدعا مسترد کی اور کہا کہ خفیہ ایجنسی کے نمائندوں کا اس قتل کیس سے کیا تعلق ہے۔
سپریم کورٹ نے پولیس افسران پر مشتمل نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا، جس کی سربراہی آفتاب پٹھان کریں گے جبکہ بقیہ افسران میں ولی اللہ، ڈاکٹر رضوان اور آزاد ذوالفقار شامل ہوں گے۔
راؤ انوار نے مؤقف اختیار کیا کہ”میں بے گناہ ہوں مجھے قتل کے کیس میں پھنسایا گیا، یہ بیانِ صفائی سننے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ قانون مفرور شخص کو کسی قسم کی رعایت نہیں دیتا مگر سپریم کورٹ نے آئی جی سندھ کو راؤ انوار کو سخت سیکیورٹی دینے کی ہدایت کردی۔
ساتھ ہی چیف جسٹس نے اسٹیٹ بینک کے گورنر کو ہدایت کی کہ وہ راؤ انوار کے بینک اکاؤنٹس بحال کریں۔ واضح رہے کہ مفروری کی وجہ سے راؤ انوار کا سیلری اور دوسرا اکاؤنٹ عدالتی حکم پر منجمد کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو گرفتار کر کے کراچی منتقل کرنے کی ہدایت کی اور حکم دیا کہ راہداری ریمانڈ کی ضرورت نہیں۔ آئی جی سندھ اور اسلام آباد مفرور ملزم کی سیکیورٹی کے ذاتی حیثیت میں ذمہ دار ہیں۔