ایف بی آئی کی خاتون اہلکار، داعش کے نظریے سے متاثر، جنگجو سے شادی کرلی

امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی نے اس بات کی تصدیق کی ہے ان کی ایک مترجم نے شام کا سفر کیا اور شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ میں لوگوں کو شامل کرنے والے اس شخص سے شادی کر لی جس کے بارے میں وہ تفتیش کر رہی تھیں۔

ایف بی آئی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعے کے بعد انھوں نے ‘مختلف شعبوں میں کئی اقدامات کیے ہیں تاکہ سکیورٹی کی خامیوں کی شناخت کر کے انھیں دور کیا جا سکے۔’

امریکی نیوز چینل سی این این نے اس خبر کو بریک کرتے ہوئے کہا کہ ڈینیئلا گرین نے سنہ 2014 کے اپنے شام کے سفر کے بارے میں اپنے حکام سے غلط بیانی کی تھی۔

38 سالہ گرین جب فرار ہو کر امریکہ واپس آئیں تو انھیں دو سال تک جیل میں رکھا گیا۔

امریکی جج نے اس کی کہانی کو صیغۂ راز میں رکھنے کا حکم دیا تھا لیکن پیر کو وفاقی عدالت کے ریکارڈز کے کھولے جانے کے بعد پہلی بار اس کا انکشاف ہوا۔

گرین نے جس شخص سے شادی کی تھی ان کا نام ڈینس كسپرٹ ہے اور وہ ایک جرمن ریپر یا گلوکار تھے جو بعد میں دولت اسلامیہ کے لیے لوگوں کو بھرتی کرنے لگے۔

فروری سنہ 2015 میں امریکی حکومت نے انھیں مخصوص طور پر عالمی دہشت گرد قرار دیا۔ اپنے ایک پروپگینڈا ویڈیو میں انھیں تازہ تازہ ہلاک کیے جانے والے شخص کا سر ہاتھ میں اٹھائے دیکھا گیا تھا۔

گرین ایف بی آئی کے ڈیٹرائیٹ فیلڈ آفس میں کام کرتی تھیں اور سی این این کے مطابق جنوری سنہ 2014 میں انھیں كسپرٹ کی جانچ کا کام سونپا گیا تھا۔

چھ ماہ بعد جرمن زبان کی ماہر مترجم گرین نے شام جا کر ان سے شادی کر لی تھی۔

چیکوسلواکیہ میں پیدا ہونے والی گرین نے اپنے حکام کو بتایا کہ وہ اپنے والدین سے ملنے جرمنی جا رہی ہیں۔

لیکن سی این این کے مطابق وہ جرمنی جانے کی بجائے ترکی چلی گئیں جہاں دولت اسلامیہ کے ایک مقامی کارکن کی مدد سے انھوں نے سرحد عبور کرکے شام میں قدم رکھا۔

شام اور ترکی سرحد

خیال رہے کہ اس دوران كسپرٹ نے اپنا سٹیج کا نام ڈیسو ڈاگ کو ترک کر کے ابو طلحہ الالمانی رکھ لیا تھا۔

جلد ہی اپنے نئے شوہر کے بارے میں گرین کے خیالات بدلنے لگے۔

سی این این کے مطابق انھوں نے امریکہ میں ایک نامعلوم شخص کو لکھا: ‘اس بار میں نے واقعی بہت گڑبڑ کی ہے۔’

اگلے دن انھوں نے لکھا: ‘میں ختم ہو چکی ہوں اور میں واپس نہیں آ سکتی۔ میں بہت سخت حالات میں ہوں اور مجھے علم نہیں کہ میں یہاں کب تک زندہ رہ سکوں گی لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔’

شام پہنچنے کے ایک ماہ بعد ہی وہ وہاں سے بھاگ نکلیں اور امریکہ واپس چلی آئيں۔

سی این این کے مطابق گرین نے اعتراف کیا کہ انھوں نے كسپرٹ کو بتا دیا تھا کہ وہ ایف بی آئی کے نشانے پر ہے۔

بہر حال یہ واضح نہیں کہ گرین دولت اسلامیہ کے زیر قبضہ علاقے سے فرار ہونے میں کس طرح کامیاب ہوئیں۔

تاہم امریکہ کی وفاقی جیل میں دو سال گزارنے کے بعد گذشتہ سال موسم گرما میں انھیں رہا کر دیا گیا تھا اور اب وہ کسی نامعلوم مقام پر ایک ہوٹل میں بطور ہاسٹس کام کرتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں: