حیدرآباد 11 سالہ طالبہ کی اسکول میں‌ خودکشی: ’مومنا بہت حساس تھی‘

’مومنا بہت زیادہ حساس تھی اور وہ ہر چیز کو بہت زیادہ محسوس کرتی تھی۔ یہ کہنا ہے کہ حیدرآباد کے علاقے قاسم آباد کے نجی اسکول کی تیسری منزل سے کود کر خودکشی کرنے والی طالبہ مومنا کے قریبی عزیز کے تھے۔

دو روز قبل تیرہ سالہ طالبہ اسکول کی تیسری منزل سے گر کر جاں بحق ہوئی، محکمہ تعلیم نے غفلت برتنے پر اسکول کی رجسٹریشن بھی معطل کردی جبکہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بچی کے قریب اسکول کا ملازم موجود تھا جو اُسے بروقت اقدامات کر کے بچا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ وہاں پر چند قدم کے فاصلے پر ایک ٹیچر بھی موجود تھا، جو بچی کو بالکونی کی دیوار پر چڑھتا دیکھتا رہا۔

اس بچی کے بیگ سے آخری تحریر ملی ہے جس میں اُس نے لکھا تھا کہ وہ گھر والوں خصوصا والدین کا رویہ برداشت نہیں کرسکتی۔

بچی نے اپنے خط میں شکوہ کیا کہ اُس کے والدین نے بہن کو طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے ٹیوشن نہیں بھیجا اور جب اُس نے اپنے سر میں درد کا بتایا تو زبردستی بھیج دیا، وہ دوسرے بہن بھائیوں پر زیادہ دھیان دیتے ہیں جبکہ وہ اگر اپنے والد سے شکایت کرتی ہے تو اُس کی بات سننے کے بجائے ڈانٹ اور سختی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Image

مقتولہ نے یہ بھی لکھا کہ میرے والدین اور بہنیں میرے ساتھ کھانا نہیں کھاتیں، جب میں اوپر جاتی ہوں تو والدہ ڈانٹتی ہیں اور بھائی کے ساتھ کھیلتی ہوں تو منع کیا جاتا ہے۔جب میری بہن ٹیب دیکھتی تو اس کو کچھ نہیں کہتے اور جب میں دیکھتی تو ڈانٹتے۔ جب میری بہن کھانا کھانے سے انکار کرتی تو والدین کہتے کہ کوئی مسئلہ نہیں اور جب میں منع کرتی تو مجھ ڈانٹنے

بچی نے اپنے خط میں لکھا کہ میری ماں مچھ پر طعنے کستی ہیں اور والد ہر وقت ڈانٹے ہیں جس کی وجہ سے مجھے دونوں سے نفرت ہے۔  بچی نے خط کے آخر میں لکھا کہ ان ساری وجوہات کی وجہ سے میں خودکشی کرنا چاہتی ہوں مگر مجھ میں طاقت نہیں ہے۔

لطیف آباد تھانے کے پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ واقعے کا مقدمہ دو روز گزرنے کے باوجود تاحال درج نہیں ہوسکا جبکہ فیملی سرکل میں سے کچھ نے نمائندہ ذرائع کو بتایا کہ ’مومنا بہت حساس طبیعت کی تھی اور وہ ہر چیز کو بہت محسوس کرتی تھی‘۔

انہوں نے والدین پر لگنے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا اور نہ ہی ہم نے دیکھا۔ والدین یا بہن بھائیوں نے اس حوالے سے بات کرنے سے انکار کردیا۔

ایس ایس پی حیدرآباد امجد شیخ نے بتایا کہ ’بچی کی لاش کو لیاقت یونیورسٹی اسپتال منتقل کر کے پوسٹ مارٹم کیا گیا، بچی کے والد سرکاری ملازم اور کراچی میں تعینات تھے، ابتدا میں انہوں نے پوسٹ مارٹم کی اجازت نہیں تھی‘۔

میڈیکل لیگو افسر ڈاکٹر صنوبر نے نجی میڈیا کو بتایا کہ ’تیسری منزل سے سر کے بل گرنے کی وجہ سے مومنا کے چہرے کی ہڈیاں مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھیں‘۔

حل کیا ہے؟

ماہرین نفسیات اور اطفال سے جب اس مسئلے کی وجہ اور حساسیت جاننے کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’ذہنی صحت واقعی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اگر والدین یا بہن بھائی بچے کو نظر انداز کریں گے تو اُس کے ذہن میں الٹے سیدھے خیالات ہی پیدا ہوں گے‘۔

کیا بچوں میں بھی خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر تزئین (ماہر نفسیات) نے کہا کہ ’دراصل موبائل فونز کا بچوں کی پہنچ میں ہونا اور اُس پر نظر نہ رکھنا بھی کسی بڑے مسئلے کا شاخسانہ ہوسکتے ہیں‘۔

’ہمارے بچے یا آجکل کے بچے ویڈیوز دیکھ کر بہت زیادہ حساس ہورہے ہیں اور وہ ہر چیز کو بہت زیادہ حاوی کرلیتے ہیں، اس لیے اُن کو جسمانی کھیلوں کی طرف راغب کرنا اور سب سے بڑھ کر نظر انداز نہ کرنا ہے کیونکہ تنہائی صرف بچوں کیلیے نہیں بلکہ بڑوں کیلیے بھی زہر ہے‘۔