سپریم کورٹ : جسٹس نقوی کو الگ کرنے، فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد

اسلام آباد :سپریم کورٹ نے عدالتی اصلاحات کے قانون (سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ )کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے مقدمے کے فریقین سے جامع تحریری جواب طلب کرلیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل 8 رکنی لاجر بینچ نے کیس کی مزید سماعت 8مئی تک ملتوی کرتے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء پر پارلیمانی کارروائی کا تمام ریکارڈ بھی طلب کرلیا اور آبزرویشن دی کہ یہ معاملہ ریاست کے تیسرے ستون سے متعلق قانون سازی کا ہے، اسے سنجیدگی اور بالغ نظری کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے کہ زیر غور قانون اپنی نوعیت کا پہلا قانون ہے جو پارلیمنٹ نے منظور کیا، اس کا تعلق عدلیہ کے اختیارات سے ہے،وفاقی قانون سازی فہرست میں پارلیمان کی قانون سازی کی حدو د وقیود مقرر ،اس ملک کا مسلمہ قانون ہے کہ آئین کے بنیادی خدو خال نہیں بدلے جاسکتے، جمہوریت اور وفاقیت کے علاوہ عدلیہ کی آزادی بھی آئین کا بنیادی جز و ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عدلیہ کی آزادی کے منافی قانون سازی نہیں ہوسکتی ،زیر غور درخواستوں میں یہ الزام لگایاگیا ہے کہ آئین کے بنیادی خد و خال سے متعلق قانون سازی کرکے آئین کی خلاف ورزی کی گئی۔

عدالت نے بینچ سے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو نکالنے کی پاکستان بار کونسل کے نمائندے حسن رضا پاشا کی استدعا مسترد کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ کسی جج کے خلاف ریفرنس سے بحیثیت جج ان کا کام متاثر نہیں ہوتا ۔چیف جسٹس نےافتخار چوہدری کیس کا حوالہ دیتے ہوئے آبزرویشن دی کہ مذکورہ کیس کے فیصلے میں طے کئے گئے اصولوں کی پچھلے کئی سال سے پیروی کی جارہی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کسی جج کے خلاف ریفرنس صدر کی طرف سے آتا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے اکثریتی ججوں کے خلاف شکایات آتی رہتی ہیں،جج کے خلاف شکایت سے ان کے منصب پر فرق نہیں پڑتا ،جب تک سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے نہیں آتی ،کسی جج کو عدالتی امور کی انجام دہی سے نہیں روکا جاسکتا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی عدالت نے یہی فیصلہ دیا تھا، سیاسی معاملات نے ماحول کو آلودہ کیا ،سپریم کورٹ کے ہر جج کی اپنی عزت ہے ،سب عدالت کے فیصلوں کےپابند ہیں ،اگر عدالت کے ججوں کی عزت نہیں کی جائے گی تو انصاف کے لئے نہیں کہا جاسکتا۔

عدالت نے معاملہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججوں کے سامنے مقرر کرنے کی استدعا بھی مسترد کی ۔چیف جسٹس نے پاکستان بار کے نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا بینچ کی تشکیل چیف جسٹس کا اختیار ہے ،کیس لارجر بینچ یا فل کورٹ نے سننا ہے، یہ فیصلہ چیف جسٹس کرتا ہے،سیاسی شخصیات انصاف نہیں، من پسند فیصلے چاہتی ہیں، اس لئے مرضی (پک اینڈ چوز)کرتے ہیں، انتخابات کے مقدمے میں بھی کچھ ججز کو نکال کر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

عدالت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف حکم امتناعی ختم کرنے کی اٹارنی جنرل کی استدعا بھی مسترد کردی اور آبزرویشن دی کہ عبوری آرڈر جاری رہے گا۔

منگل کیس کی سماعت ہوئی تو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین، پیپلز پارٹی کی طرف سے فاروق ایچ نائیک، پاکستان بار کونسل کی جانب سے چیئر مین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضا پاشا پیش ہوئے جبکہ عدالت کو بتایا گیا کہ مسلم لیگ (ق) نے زاہد ابراہیم کی خدمات حاصل کی ہیں، تحریک انصاف کے وکیل طارق رحیم نے بتایا کہ ریکارڈ پر لانا چاہتاہوں گزٹ نوٹی فکیشن ہوچکا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ باقاعدہ قانون بن چکا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہ اٹارنی جنرل صاحب! جواب کے لئے کتنا وقت درکار ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا میرا جواب تقریبا تیار ہے ،مزید دو دن چاہئیں ۔

چیف جسٹس نے کہا 8 مئی سے بینچ دستیاب ہے، چاہے تو اس جمعہ کو بھی سن سکتے ہیں۔

عدالت نے سپریم کورٹ رولز،پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر پارلیمانی کارروائی اور قائمہ کمیٹی میں ہونے والی بحث کا ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں: