متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کنونیئر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ دو تین جماعتوں کو ایم کیو ایم سے خطرہ ہے، متحدہ کے خلاف ہمیشہ سے طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان یونائیٹڈ لیبر فیڈریشن کے زیر اہتمام یوم مزدور کا پروگرام مرکز بہادر آباد سے متصل پارک میں منعقد ہوا۔جس میں مزدور یونینز اور مزدوروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی،سینئر ڈپٹی کنوینرسید مصطفٰی کمال، ڈپٹی کنوینرزانیس احمد قائم خانی،عبدالوسیم، خواجہ اظہارالحسن و اراکین رابطہ کمیٹی بھی موجود تھے۔
اس موقع پر کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج 3 مئی ہے اور یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن پر ہر سال کی طرح حق پرستوں نے آج کی محفل سجائی ہے، سن 1886 شکاگو کے مزدوروں نے اپنے حق کیلئے متحد ہوکر آواز بلند کی اور اس آواز کو دبانے کیلئے عدالتوں کو استعمال کر کہ 5 مزدوروں کو قتل کردیا گیا، لیکن کیا انکی یہ جدوجہد اور لاکھوں مزدوروں کیلئے دی گئی قربانی اگر رائیگاں ہو جاتی تو آج ہم یہاں یہ دن نہیں منا رہے ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ اس جدوجہد کی وجہ سے ہی یہ آواز پوری دنیا میں پہنچ جاتی ہے، جب روس میں فوج کو حکم دیا گیا کہ عوام پر گولیاں چلائیں تب فوج عوام کے ساتھ ہتھیار لیکر کھڑی ہو گئی تھی ایک طرف وہ لوگ تھے جس نے مزدوروں کو سزا دلوائی اور دوسری طرف عوام اور فوج نے کھڑے ہوکر وہ کردیا جو تا قیامت یاد رکھا جائیگا۔
انہوں نے کہا کہ جس شکاگو میں مزدوروں کو پھانسی دی گئی تھی وہاں کوئی مزدوروں کو خریدنے کی جرات نہیں کر سکتا آج پورے یورپ میں جو بھی تبدیلی آئی ہے وہ انہی مزدوروں کی جدوجہد سے آئی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ تبدیلی نعروں سے نہیں عمل سے آتی ہے آج جو لوگ یہاں بیٹھے ہیں وہ پاکستان کیلئے آخری امید ہیں اور اگر ہم خود تبدیل نہیں ہوسکتے تو ہم اس تحریک کو خود چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ارادہ کیا تو پاکستان بنا ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے آزادی کی قدر نہیں کی اور بدقسمتی سے پاکستان بنے کے بعد انکے ہاتھوں میں آیا جوبدترین غلام تھے اور سب کو اندازہ ہے کہ جو پاکستان بنا سکتے ہیں وہ ہی چلا سکتے ہیں اسی لئے ہمیں ٹھیک نہیں گنا جا رہا لیکن ہم اپنے آپ کو گنوا لیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کسی عمارت کا نام نہیں ہے ایم کیو ایم وہ ہے جو ہم ہیں جو ہم کرینگے ویسا ہی عمل ہوگا اور ویسا ہی ردعمل ہوگا ، آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم سب مل کر طے کریں کہ ہمارا مقصد کیا ہے ہمیں تنظیم کے خاطر خود کو تبدیل کرنا ہے یا تنظیم کو تبدیل کرنا ہے اور جو تبدیل نہیں ہو سکتا تنظیم اسے نکالنے کی طاقت رکھتی ہے۔