الزام سے ادارے کیسے بدنام ہو سکتے ہیں ؟عمران خان

لاہور،اسلام آباد: چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ جنہیں حملے کا ذمہ دار سمجھتا ہوں کیا ان کو نامزد کرنے کا حق نہیں،مجھے میرے قانونی اور آئینی حق سے کیوں محروم رکھا گیا،کسی پر جرم کا الزام لگائیں تو ادارے کیسے بدنام ہوسکتے ہیں ؟عمران خان اور پرویز الٰہی کے درمیان زمان پارک میں خصوصی ملاقات ہوئی جس میں اعلان کردہ جلسوں اور عوامی تحریک کے لیے بھرپور تیاریاں کرنے،آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور چیف جسٹس سمیت معزز عدلیہ سے بھرپور اظہارِ یکجہتی پر اتفاق کیا گیا ۔

اپنے ٹویٹ میں عمران نے کہا کہ کیا ایک ایسا شخص جو گزشتہ چند ماہ کے دوران دو قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنا،کے طور پر میں شہبازشریف سے سوالات پوچھنے کی جسارت کرسکتاہوں ؛

1۔ بطور پاکستانی شہری کیا مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں ان لوگوں کو نامزد کروں جو میرے خیال کےمطابق مجھ پر قاتلانہ حملے کے ذمہ دار تھے؟ مجھےمقدمےکے اندراج کےآئینی و قانونی حق سے کیوں محروم کیا گیا؟

2۔ کیا شہباز کی ٹویٹ کا مطلب یہ ہےکہ ایک ادارے کے افسران قانون سےبالاتر ہیں یا وہ کسی جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتے؟ اگر ان میں سےکسی کےبارےمیں ہمارا خیال یہ ہےکہ اس نےکوئی جرم کیا ہے تواس سے ادارہ کیسے بدنام ہوتا ہے؟۔
3
۔کون اتنا طاقتور تھاکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کےباوجود وزیرآباد جے آئی ٹی کو سبوتاژ کرسکتا؟

4۔ کیاشہبازشریف بتاسکتےہیں کہ 18مارچ کو میری پیشی سے پہلے والی شام ایک ادارے نےاسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس پر کیوں پوری طرح قبضہ کرلیا؟ ادارے کے لوگوں نے سی ٹی ڈی اور وکلاء کا روپ کیوں دھار رکھا تھا؟، انکےلوگوں کی وہاں موجودگی کا مقصدکیاتھا اور انکا جوڈیشل کمپلیکس میں کام ہی کیا تھا؟ ، اگر شہباز ان سوالات کےسچ پر مبنی جوابات دیں سکیں تو ان سب سے ایک ہی طاقتور شخص اور اس کےساتھیوں کا سراغ ملےگا جو سب قانون سےبالاتر ہیں، چنانچہ وقت آگیا ہے کہ ہم باضابطہ اعلان کریں کہ پاکستان میں جنگل ہی کا قانون رائج ہے جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کار فرما ہے ۔

عمران خان اور پرویز الٰہی کی ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال اور سیاسی حکمتِ عملی سمیت اہم امور ، پرویز الہٰی اور ان کے اہلِ خانہ اور ساتھیوں کیخلاف جاری غیرقانونی انتقامی کارروائیوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔دونوں رہنمائوں نے 90 روز کی آئینی مدت گزر جانے کے باوجود پنجاب میں نگران حکومت کے وجود اور فسطائیت کی شدید مذمت کی۔

ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ایک بدعنوان آئی جی کی قیادت میں وفاقی پولیس ایسے وقت میں تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈائون میں لگی ہوئی ہے جب قومی انتخابات محض چند ماہ کے فاصلے پر ہیں۔عمران کی زیرصدارت مرکزی رہنمائوں کا اجلاس ہوا جس میں 14مئی کے بعد کی حکمت عملی کے حوالے سے جائزہ لیا گیا ۔ اجلاس میں مریدکے جلسے کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا ۔

صحافیوں اور اینکر پرسنز سے ملاقات میں عمران خان نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت کے خلاف فیصلہ کن حکمت عملی کی تیاری شروع کردی ہے،آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کےلئے چند روز انتظار کریں گے ۔ عمران سے عندلیب عباس کی سربراہی میں وفد نے ملاقات کی ۔ مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ عمران عدالت میں پیشی کے لئے آج اسلام آباد جائیں گے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں: