سندھ ہائیکورٹ نے ایک بار پھر سندھ سروسز رولز 2018 کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے آبزرویشن دیتے ہوئے کہا ہے کہ رولز 2018 سپریم کورٹ فیصلے کی نہ صرف خلاف ورزی ہے بلکہ سندھ حکومت نے سروسز رولز کو سیاست کی نظر کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہائیکورٹ نے سندھ صوبائی منیجمنٹ سروسز رولز 2018 سے متعلق درخواست پر فیصلہ سنادیا۔ عدالت عالیہ نے سول سرونٹ اور پرونشل منیجمنٹ سروس رولز کو سپریم کورٹ کے احکامات کیخلاف قرار دے دیا۔
سروسز رولز کیخلاف سندھ ہائیکورٹ اس سے پہلے بھی فیصلہ سنا چکی ہے۔
درخواستگزار کے وکیل نے کہا کہ پی ایم ایس آر کے تحت سیکرٹریٹ اور انتظامی افسران کو ایک ہی کیڈر میں ضم کردیا گیا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر اور سیکشن آفیسرز کے فرائض مختلف نوعیت کے ہیں۔ اس قانون سے سروسز کا ڈھانچہ متاثر ہوتا ہے اور افسران کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
سندھ حکومت نے عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔ سپریم کورٹ نے آئینی معاملات میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی رائے شامل کرنے کے لیے کیس واپس سندھ ہائیکورٹ کو بھیج دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کو ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا موقف سن کر دوبارہ فیصلے کی ہدایت کی تھی۔ صوبائی منیجمنٹ سروسز رولز کو ایگزیکٹو آفیسر ذوالفقار خشک اور دیگر نے چیلنج کیا تھا۔درخواست پر جسٹس محمد اقبال کلہوڑو اور عدنان کریم میمن پر مشتمل دو رکنی بنچ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔