پارا چنار تنازع، جبران ناصر نے بڑا مطالبہ کردیا

انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے معروف وکیل جبران ناصر نے پارا چنار میں جاری لڑائی پر میڈیا سے آواز اٹھانے کا مطالبہ کردیا۔

انہوں نے سماجی رابطے کی سائٹ پر ایک طویل پوسٹ میں لکھا کہ ’پاراچنار اور گردونواح کے علاقے گزشتہ 5 دنوں سے مسلسل جھڑپوں اور تشدد کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ جبکہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق یہ زمین کے ایک ٹکڑے پر قبائلی جھڑپیں ہیں، ٹویٹر پر بہت سے ایسے ہیں جو تشدد کے پیچھے فرقہ وارانہ وجوہات کا دعویٰ کرتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ قومی دھارے کے میڈیا اور اینکرز کو پاراچنار اور مقامی لوگوں کی حالت زار کو اجاگر کرنا چاہیے تاکہ نہ صرف سچ سامنے آسکے بلکہ ریاستی مشینری متحرک ہوکر کرم ایجنسی میں امن قائم کرے اور متاثرین کی حفاظت بھی کرے۔

جبران ناصر نے لکھا کہ کرم کی فرقہ وارانہ جھڑپوں کی ایک خونی تاریخ رہی ہے اور یہاں پر مقیم برادری دہشت گرد تنظیموں کے متعدد حملوں و محاصروں کا شکار رہی ہے۔ 2017 میں پاراچنار کے اپنے دورے میں ایک بم حملے کے بعد جس میں درجنوں افراد کی جانیں گئیں، میں نے یہ سیکھا کہ کس طرح سالوں سے شہر کے نوجوان زیادہ تر شیعہ اقتصادی مواقع کی کمی اور زندگی کو لاحق خطرات کی وجہ سے ہجرت کرنے یا بیرون ملک پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ پاراچنار کے عوام کو وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی جواب دینے سے پہلے ہی 10 دن تک دھرنا دینا پڑا۔ مظلوموں کے صبر کا امتحان نہ لیں اور ان کی حالت زار کا مزید مذاق نہ اڑائیں۔ فاٹا کے انضمام کے بعد کے پی حکومت علاقے میں امن و امان کی ذمہ دار ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایک عبوری سیٹ اپ یعنی غیرمنتخب عہدیدار 6 ماہ گزرنے کے بعد بھی آئین کے خلاف حکومت کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ طویل مدت میں کسی بھی علاقے یا خطے کو جمہوریت سے محروم رکھنا صرف تشدد کو سہارا دے گا اور اس سے امن قائم نہیں ہوسکے گا۔