اسلام آباد: پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی بی (انٹیلی جنس بیورو) پر سینئر افسر نے سنگین الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افسران اسرائیل کے دورے کرتے جبکہ غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں سے مکمل رابطے میں ہیں، آئی بی کے افسران دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں اور راستے فراہم کرتے ہیں جبکہ فرقہ وارانہ دہشت گردی پھیلانے والوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق آئی بی کے سب انسپیکٹر (اے ایس آئی) ملک مختار احمد شہزاد نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ آئی بی کے کچھ افسران ایران، افغان انٹیلی جنس اداروں کے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئی بی افسران جاسوس دہشت گردوں کے ساتھ مشترکہ کاروبار کرتے ہیں اور اُن کو جنوبی پنجاب میں رہائشی جگہیں بھی فراہم کی ہوئی ہیں۔
عدالت کو درخواست میں بتایا گیا کہ آئی بی نے دہشت گردوں کے خلاف ثبوت و شواہد موجود ہونے کے باوجود کارروائی نہیں کی کیونکہ اعلیٰ افسران ملک مخالف دہشت گرد تنظیموں سے رابطوں میں ہیں۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ افسران اسرائیل کے دورے کرتے ہیں اور وہ افغان انٹیلی جنس سے براہ راست رابطے میں ہیں، حساس ادارے کے سینئر افسران نے کرغزستان اور دیگر ممالک کے دہشت گردوں کو جنوبی پنجاب بہالپور کے علاوہ کوٹ مومن اور بہاولپور میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی ہوئیں ہیں۔
پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایران اور افغان خفیہ ایجنسیاں دہشت گردی کے لیے مہاجرین کو استعمال کررہی ہیں جبکہ یہ تمام تر صورتحال ڈی جی آئی بی کے علم میں بھی ہے مگر انہوں نے بھی اس کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کیے، اس لیے عدالت اس کیس کی تحقیقات فوری طور پر آئی ایس آئی سے کروائے تاکہ حساس معاملے کو فوری حل کیا جائے اور ملک کو نقصان سے بچایا جائے۔
آئی بی افسرا نے درخواست میں لکھا کہ وہ اب تک آئی بی کی طرف سے مختلف مقامات پر سیکیورٹی کے فرائض سرانجام دے چکے ہیں اور انہوں نے یہ معاملہ سابق وزیر اعظم نوازشریف سمیت اہم شخصیات کے سامنے بھی اٹھایا ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ اس معاملے کو وزیراعظم کے علم میں لاکر فوری تحقیقات شروع کروائی جائیں اور آئی بی کے جو افسران فرقہ وارانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں اُن کے خلاف کارروائی کی جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے کیس جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں بھیجا تاہم انہوں نےیہ مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی عدالت میں بھیج دیا جس پر نوٹ درج کیا گیا کہ حساس معاملے کا مقدمہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیج دیا جائے تو بہتر رہے گا۔
یہ خبر 26 ستمبر کو روزنامہ ڈان میں شائع ہوئی