لاہور: چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نےکہاہےکہ پاکستان جمہوری ملک ہے اور کس میں ہمت ہے مارشل لاء لگائے، سپریم کورٹ کے 17 ججز مارشل لاء نہیں لگنے دیں گے۔
لاہور میں یوم اقبال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاکہ پاکستان ہمیں خیرات یا تحفے میں نہیں ملا، یہ ملک مستقل جدوجہد اور قربانیوں سے حاصل ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری نظر میں سب سے اہم چیز تعلیم ہے، تعلیم سے متعلق کسی چیز پر سمجھوتا نہیں کروں گا، قوم کی بقا کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے، کیا ہم نے ایسے موقع پیدا کیے جو بچہ ڈاکٹر بن کے ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہے اسے بلا سفارش یا ایسا تعلیمی نظام میسر ہو جہاں جاکر وہ تعلیم حاصل کرسکے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں یہ تعلیم کا عالم ہے، بلوچستان میں 6 ہزار پرائمری اسکول پانی اور بیت الخلاء کے بغیر چل رہےہیں، بچیاں حاجت کے لیے فصلوں میں جاتی ہیں، پانی پینے کے لیےمیسر نہیں، پنجاب میں اسی طرح کی صورتحال ہے، کے پی میں بتایا گیا وہاں بہت اسکول ہیں جہاں پانی اور چار دیوار نہیں ہوسکی، یہ کون دے گا؟ ہمارا ٹیکس کا پیسہ تعلیم پر خرچ نہیں ہوتا تو کہاں ہوتا ہے۔
انہوں نےکہا کہ پہلے اپنے اوپر وہ کیفیت طاری کریں جس میں قوم کی خدمت کا جذبہ ہو، بنیادی حقوق دینےکا جذبہ ہو۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ امتیازی کلچر کو ختم کرنا ہوگا، بنیادی حقوق کی ذمہ داری کس کی ہے، کیا وہ پوری کی گئی، یہ میری ڈیوٹی ہے اور اس پر پرفارم کرنے کو تیار ہوں، اس میں میری مدد کریں اگر فیل ہوجاؤں تو اپنےآپ کو سری زندگی معاف نہیں کر پاؤں گا۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ میری نسل اور قوم کا حق ہے، اس حق کو استعمال کریں، کہیں ہمیں تعلیم چاہیے، جو والدین اپنےبچوں کو تعلیم دینےمیں کوتاہی کررہے ہیں وہ مجرم ہیں۔
چیف جسٹس کا کہناتھاکہ انسان کی زندگی بہت نایاب اور قیمتی ہے، ہم کیڑے مکوڑے نہیں، کیا یہ زندگی بے چارگی، مارے کھانے، کسمپرسی اور ناجائز قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے لیے ہے یا منہ بندی کرنے کے لیےہے، زندگی بولنے کے لیے ہے لیکن جب کوئی بولنے کی کوشش کرت ہے اسے بولنے نہیں دیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ زندگی صحت کے ساتھ جڑی ہوئی، جس اسپتال میں گیا وہاں ایم آر آئی مشین نہیں، سی سی یو نہیں، کہیں انٹرا ساؤنڈ نہیں، خیبرپختونخوا میں الٹرا سائونڈ کرنے کے لیے لیڈی ڈاکٹر کی ضرورت ہے، کیا یہ رائٹ ٹو لائف ہے؟ 1300 دوائیاں جو اسپتال میں مفت تقسیم کی جانی چاہئیں وہ نہیں مل رہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جس ووٹ کی قدر اور عزت کے لیے فرماتے ہیں اس کی عزت یہ ہے کہ لوگوں کی عزت کریں ان کو وہ حق دیں جو آئین نے ان کو فراہم کیا، میں نے بنیادی حقوق کے لیے کام کیا، کیا کوئی غلط کام کیا۔
انہوں نےمزید کہا کہ عدلیہ مکمل آزاد ہے، میرا وعدہ ہے ہم کسی کا دباؤ قبول نہیں کریں گے، سن کر حیرت ہوتی ہے، جب کچھ اینکروں کو بھونچال آتا ہے کہ مارشل لاء آرہا ہے، کون لگا رہا ہے مارشل لاء؟ کس نے لگانے دینا ہے؟ کس میں ہمت ہے؟ یہ ملک صرف جمہوری ہے، قائداعظم اور علامہ اقبال کا تصور جمہوری تھی اور ملک میں صرف جمہوریت رہے گی۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ پہلے میں نے کہاکہ اگر ایسا ہوا تومیں نہیں ہوں گا لیکن اب کہتا ہوں کہ جس دن شب خون مارا گیا تو سپریم کورٹ کے 17 ججز نہیں ہوں گے، یہ 17 ججز مارشل لاء نہیں لگنےدیں گے، جب کہ کسی جوڈیشل مارشل لاء کا تصور نہ ذہن نہ آئین میں ہے یہ کسی کے دل کی خواہش یا اختراع ہوسکتی ہے، کیوں لوگوں کو اضطراب میں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے، ماورائے آئین کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ قوم کے تعاون سے آپ کے حقوق کے لیے لڑرہے ہیں، جس دن محسوس کیا اس حیثیت اور طاقت میں نہیں رہے، سمجھ آئی قوم سپورٹ نہیں کررہی تو کام نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ ہر کورٹ میں جارہا ہوں، دیکھ رہے ہیں کیسے کارکردگی ہے، یہاں کوئی وضاحت دینے کے لیے نہیں آیا، کسی ذمہ داری سے اپنےآپ کو نہیں چھڑانا چاہتا، لیکن کیا انصاف کرنا عدلیہ کی ہی ذمہ داری ہے، ہر جس ادارے میں بے انصافی ہو ان کی ڈیوٹی ہے وہاں انصاف کریں کیونکہ جتنے لوگوں کےحقوق مارے جائیں گے اتنے ہی لوگ عدالت میں آئیں گے۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ قانون جدید تقاضوں کے تحت ہوتا ہے وہ قانون بدل دیں، مقننہ نے اس بارے میں کوئی قانون بنایا، سندھ میں پولیس لاء 1861 کا ہے، میرے پاس کوئی وسال نہیں کہ ججز کی تعداد بڑھاؤں یا بلڈنگ بناؤں، مجھے وسائل دیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم پر الزام ہے عام کیسز کو ڈیل نہیں کررہے، ہم عام کیسز کو ڈیل کررہے ہیں، اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں کررہا ہے، اپنی ذات پر لعنت بھیجتا ہوں، میں کوئی عوامی چیف جسٹس نہیں، میں اس ملک اور قوم کا چیف جسٹس ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی صوبے کی بات نہیں کررہا، اپنی مرضی سے وائس چانسلر لگادیا جاتا ہے، کسی جگہ وی سی ڈھائی سال سے نہیں لگا کسی جگہ تین ماہ سے نہیں لگا، میرٹ کا کوئی عتلق نہیں، سنیارٹی کو مد نظر نہیں رکھا جاتا، یہ وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سےعدالتوں پر بوجھ بڑھ رہا ہے، اگر کام ٹھیک ہوں تو عدالتوں پر بوجھ نہیں آئے گا۔
بشکریہ جیو