نیب نے آج مورخہ 12 اکتوبر کو ایک روز قبل گرفتار کیے جانے والے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور دیگر پروفیسرز کو عدالت میں ہتھیکڑیاں لگا کر پیش کیا۔۔۔ پیشی کے لیے پروفیسر مجاہد اور اُن کے ساتھیوں کو لایا گیاتو ویڈیو بنی جس پر سب نے انتہائی افسوس کا اظہار کیا۔
عاصمہ شیرازی سمیت دیگر نامور صحافیوں کے دل ان مناظر کو دیکھ کر پسیج گئے، سب نے ہی مذمت کی اور اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے ریاست (ماں) کو یاد دلایا کہ پرویز مشرف، راؤ انوار اور دیگر بااثر افراد کو کبھی اس طرح پیش نہیں کیا گیا، اگر ہمت ہے تو انہیں بھی اسی طرح پیش کر کے دکھائیں، بلکہ ادارے اتنا ہی کرلیں کہ ہمت دکھائیں اور مشرف کو گرفتار کریں۔
یہ مناظر میرے لئے انتہائ تکلیف دہ ہیں جب بزرگ اساتذہ کو محض الزام کی بنیاد پر نیب ہتھکڑیوں میں لے جائے اور آئین توڑنے والے آزاد پھرتے رہیں تو احتساب مذاق بن جاتا ہے، اداروں میں ہمت ہے تو مشرف کو گرفتار کریں ؟احتساب کے نام پر تذلیل کب تک ؟افسوس یہ معاشرہ تنزلی کی آخری منزل پر ہے۔ pic.twitter.com/U618V39ZFb
— Asma Shirazi (@asmashirazi) October 12, 2018
آوازیں بلند ہوئیں کہ احتساب کے نام پر تذلیل برداشت نہیں کی جائے گی اور وہ بھی اساتذہ کی، کیونکہ یہی لوگ تو ہیں جو معاشرے کو ہونہار نوجوان فراہم کرتے ہیں جنہیں آگے چل کر عمران خان، نوازشریف، بلاول، وغیرہ بنا ہوتا ہے اور اگر کچھ نہ بنیں تب بھی کم از کم انسان تو بن ہی جاتے ہیں۔
چلیں آئیں زرا تاریخ کے اوراق کو تھوڑا سا پلٹیں، فلسفے میں پی ایچ ڈی کرنے والے ایک پروفیسر تھے حسن ظفر عارف جو کراچی یونیورسٹی میں شعبہ فلسفہ میں تدریسی امور سرانجام دے چکے تھے، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پروفیسر نے ترقی پسند کارکن کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوایا اور سرمایہ دارانہ نظام کو چلینج کیا۔
حسن ظفر عارف کی جدوجہد بہت طویل ہے ، ضیا دور میں ڈٹے رہنا، ملک کی دو بار رہنے والی وزیراعظم کی راہ ہموار کرنا ، یہ آپ نے تنہا نہیں کیا بلکہ آپ کے ہمراہ نوجوانوں کا گروپ تھا جسے کامریڈ نام ملا۔
90 کی دہائی میں کنارہ ہونے والے کامریڈ گروپ نے طویل عرصے تک خاموشی اختیار کیے رکھی اور پھر 15 مئی 2016 کو حسن ظفر عارف، مومن خان مومن اور ساتھی اسحاق نے ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کی اور اس قدر ڈٹے رہے کہ متنازع تقریر کے بعد بھی بانی ایم کیو ایم کا ساتھ دیا۔
ویسے یہ کامریڈ طبقہ بھی کچھ عجیب سوچ رکھتا ہے اسے آج کی سختیوں میں کل کی نرمی نظر آرہی ہوتی ہے جس سے شاید یہ خود استفادہ نہ لیں البتہ اپنی قوم کے لیے اُس کو حاصل کرنے کا ہدف ضرور رکھتے ہیں۔
17 اکتوبر 2016 کو ڈاکٹر حسن ظفر عارف کو الطاف حسین نے ڈپٹی کنونیر نامزد کیا گیا اور پھر سیاسی جدوجہد کی پاداش میں 22 اکتوبر 2016 کو کراچی پریس کلب سے میڈیا کی موجودگی میں گرفتار کیا گیا، ہتھکڑیاں لگا کر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا، تصاویر آئیں، ویڈیوز چلیں مگر سوائے چند لوگوں کے کسی کا دل نہیں پسیجا، ہاں بہت سارے دانشوروں نے اسے پروفیسر کی غلطی قرار دیا۔
حراست میں لے کر اُن پر گولہ بارود برآمد ہونے اور دہشت گردی کی مشہور دفع 7اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، ایک سال بعد اپریل 2017 میں حسن ظفر عارف کو ضمانت پر رہائی ملی، وہ پھر متحرک ہوگئے، اس دوران انہیں کئی بار لاپتہ کیا گیا مگر وہ باز نہ آئے، شاید وہ یہ سمجھ گئے تھے کہ زندگی تو گزار لی اب امر ہونا ہے۔
تیرہ جنوری 2018 کو اپنے دفتر سے گھر جاتے ہوئے اُن کا سب سے رابطہ منقطع ہوگیا، صبح خبر چلی کہ ابراہیم حیدری میں کار کی عقبی نشست سے اُن کی لاش ملی جس پر خون کے واضح نشانات تھے، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اُن کی موت کو طبعی قرار دیا گیا ، یہ رپورٹ بالکل ویسی تھی جیسے میاں صاحب کے لندن میں اپارٹمنٹس نکلے، جیسے ٹیران کے ہوتے ہوئے اور فنڈنگ پر عمران خان صادق و امین قرار پائے۔ اب مقدمات کھلیں گے تو کل پتہ چلے گا۔
یہ تو پروفیسر حسن ظفر عارف تھے چلیں اب اُن پروفیسرز کا بھی سنیں جو کراچی یونیورسٹی میں استاد کے فرائض سرانجام دے رہے تھے جنہیں حسن ظفر عارف کے حق میں آواز اٹھانے پر یکم اپریل 2018 کو حراست میں لیا گیا۔
ان حراست میں لیے جانے والوں کو پروفیسر ڈاکٹر ریاض اور مہر افروز تھیں، مرد ٹیچر پر اسلحہ برآمد ہونے کا کیس بنا۔۔۔ پھر انہیں عدالت نے جیل بھیجا ۔۔۔ کسی کا دل نہیں پسیجا۔
پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر کی پیشی پر لوگوں کے جذبات قابل قدر ہیں، یہ چیخیں چیف جسٹس تک پہنچ گئیں جنہوں نے نوٹس لے کر ڈائریکٹر نیب اور ڈی آئی جی آپریشنز سے جواب طلب کرلیا۔ یہ ایک اچھی روایت ہے کہ اساتذہ کی تذلیل نہیں ہونی چاہیے مگر کاش اگر حسن ظفر عارف، ڈاکٹر ریاض اور مہر افروز کے وقت میں اسی طرح آواز بلند ہوتیں تو آج یہ واقعہ کرنے والے سوچتے ضرور مگر کون جانے کے استاد کی قومیت بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔