تجزیاتی رپورٹ
اسلام آباد: معروف صحافی حامد میر دو ماہ جی این این میں گزارنے کے بعد کل واپس اپنے پرانے ادارے جیو آگئے۔
دو ماہ قبل حامد میر نے اچانک جیو اور جنگ گروپ کو خیرباد کہنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد انہوں نے گورمائے گروپ (گورمائے بیکری) مالکان کے چینل GNN میں جوائنگ دی۔
حامد میر صاحب کی واپسی کیوں ہوئی اور یہ تمام چیزیں یک دم کیسے ممکن ہوئیں؟ اس حوالے سے کچھ اہم باتیں سامنے آئیں جنہیں بیان کرنا ضروری ہے۔
چند روز قبل وزیراطلاعات سمیت سینئر صحافیوں کے ایک وفد نے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور سے آئی ایس پی آر کے دفتر میں ملاقات کی جس میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی سینسر شپ کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔
سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ پاک فوج کے ترجمان نے جیو ، جنگ اور ڈان گروپ سے معاملات طے کرنے کا اشارہ دیتے ہوئے پالیسی میں نرمی کا اعلان کیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جیو اور ڈان کے معاملات جلد طے پا جائیں گے جس کے بعد ان پر عائد ہونے والی غیر اعلانیہ پابندی کو ختم کردیاجائے گا، جس کی میجر جنرل آصف غفور نے صحافیوں کو یقین دہانی کروائی۔
ابلاغ کی دنیا سے تعلق رکھنے والے اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ جب بھی کوئی نیا چینل لانچ ہوتا ہے تو جنگ ، جیو گروپ کا کوئی سینئر صحافی وہاں پر کچھ عرصے کے لیے شمولیت اختیار کرتا ہے۔
نامہ و تجزیہ نگاروں کا مانناہے کہ جیو اور جنگ اس حکمت عملی پر گامزن ہے کہ وہ اپنے سینئر یعنی وفادار شخص کو نئی چینل میں بھیج کر اُس کے ارادوں کو بھانپ لیتا ہے اور پھر وہ واپس آکر اصلاحت کرواتا ہے۔
ماضی میں جیو گروپ سے وابستہ نامور صحافی سہیل واڑئچ و دیگر بڑے نام دیگر اداروں میں جاکر انہیں نقصان پہنچا چکے ہیں اب ان میں حامد میر بھی شامل ہوگئے۔
حامد میر کی کل اسلام آباد میں جیو کے مینیجنگ ڈائریکٹر اظہر عباس اور معاذ سے ملاقات ہوئی اور واپسی کا معاملہ طے پایا۔
ان دونوں باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جیو پر عائد کی جانے والی غیر اعلانیہ پابندی ہٹنے اور جی این این کو آتے ہی ڈس یعنی دھچکا دینے کے بعد حامد میر نے دوبارہ جیو میں آنے کا فیصلہ کیا۔
https://zaraye.com/hamid-mir-pic-with-cow/
یاد رہے کہ حامد میر کے جیو چھوڑ جانے کے بعد جنید خان اُن کی جگہ پروگرام کررہے تھے۔ حامد میر کو باوثوق اور اچھا صحافی سمجھا جاتا ہے جن کی ماضی میں پیپلزپارٹی سے سیاسی وابستگی رہ چکی ہے۔
بشکریہ : عمیر دبیر