دل کو روؤں یا جگر کو پیٹوں ۔۔۔ قسط نمبر ایک

ہمارے علاقے میں ایک شخص نے گھر کرائے پر لیا، علاقے کے انتہائی معتبر اور قابلِ احترام شخصیت نے اُن کی ضمانت لی اور مالک مکان کو یقین دہانی کروائی کہ وہ ’آمران‘ کو کافی عرصے سے جانتے ہیں، جاوید انکل صوم و صلوۃ کے پابند تھے تو اُن کی بات پر مکان مالک نے بھی آنکھیں بند کر اعتبار کیا اور دیگر کے مقابلے میں کم پیسوں میں گھر کرائے پر دے دیا۔

یہاں کچھ وضاحت بھی ضروری ہے کہ جاوید انکل چونکہ مذہبی شخصیت تھے تو محلے دار امام مسجد کی غیر موجودگی میں اُن کی تقلید میں خوش و خضوع کے ساتھ نماز بھی ادا کرلیتے تھے۔

اردو کا تلفظ اچھا نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا نام آمران بتاتا تھا جبکہ اُس کا اصل نام عمران اور تعلق میاں والی سے تھا، وہ ہر روز شام میں جاوید انکل کے ساتھ گلی کے کسی چبوترے پر بیٹھے گفت گو کرتا نظر آتا تھا، گلی کے سب ہی بچے جاوید انکل کو سلام کرتے تو آمران انکل سے بھی سب کی ہیلو ہائے جلدی ہوگئی۔

ہمارے محلے میں ایک پُر تجسس لڑکا تھا جو بے پر کی پھینکنے کے حوالے سے بہت ہی مشہور تھا، وہ جب بھی کوئی بات یا واقعہ بتاتا تو اُس کی بات پر کوئی یقین نہیں کرتا تھا مگر یہ بھی ایک اہم بات تھی کہ اُس کے پاس محلے اور دوسرے علاقے کی ہر خبر ہوتی تھی، کسی کے گھر کی بجلی کٹی ہو یا کسی کا گیس بل زیادہ آگیا ان ساری باتوں سے آصف بخوبی واقف رہتا تھا۔

ایک روز آصف نے جاوید انکل کے سامنے بڑا انکشاف کیا کہ یہ جو آمران ہے نا جسے آپ شریف سمجھ رہے ہیں، یہ دوسرے علاقے کی لڑکی گھر سے بھگا کر لایا ہے، اُس کے تین بچے ہیں۔

یہ بات سنتے ہی زور دار ’چٹاخ‘ کی آواز آئی، سب نے آواز کی جانب نظر دوڑائی تو آصف گال پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا،یعنی آج جاوید انکل نے کسی کے منہ پر طمانچہ مارا اور گلی میں کھیلنے والے بچوں نے انہیں غصے میں دیکھا۔۔ اب تو سب ہی ڈر گئے تھے، اُس روزمغرب کی اذانوں سے قبل ہی سب گھروں کو چلے گئے تھے۔

جاوید انکل کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی اور انہوں نے آمران سے پوچھ ہی لیا۔ ساتھ ہی اُن کے ذہن میں اور بھی سوالات پیدا ہوئے کہ اُس کا ذریعہ معاش کیاہے  کیونکہ اُسے کبھی ملازمت پر جاتے نہیں دیکھا تھا۔

جاوید انکل ۔۔۔ بیٹا ایک بات سچ سچ بتاؤ۔۔۔

آمران: جی جاوید بھائی بولیں آپ میرے بڑے ہیں کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا

جاوید انکل: تم کیا یہاں چھپے ہوئے ہو؟

آمران: نہیں ، مگر آپ کو شاید غلط بات معلوم ہوئی۔۔۔

جاوید انکل: اچھا چلو تم خود ہی بتا دو سچ بات کیا ہے؟

گفت گو کے دوران ایک نوجوان سائیلینسر نکلی بائیک لے کر گیا، جس کے شور میں آمران کے کچھ الفاظ کھو گئے۔

جاوید انکل: کیا کہا !!! مجھے سمجھ نہیں آیا،

آمران: نہیں وہ بس میں یہ کہہ رہا تھا کہ آپ کو یہ بات کس نے بتائی

مجھے جس نے بھی بتائی ہو مگر عمران تم بتاؤ کہ حقیقت کیا ہے۔

بار بار اصرار اور قسم دینے پر عمران کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوئے، حوصلہ ملنے اور کچھ نہ کہنے کی یقین وہانی پر اُس نے بمشکل سچ بولنا شروع کیا۔

دیکھیں انکل بات یہ ہے کہ میں آپ کو شروع سے بتانا چاہوں گا، اصل معاملہ کیا ہے۔

اسی لمحے اوپر کھڑکی سے عمران کی اہلیہ نے آواز دی کہ کھانا بن گیا ،  اور میں نے لگا بھی دیا جلدی آجائیں

اب ساری رات جاوید انکل جاگتے رہے اور تمام باتیں اُن کے سامنے کیسٹ کی ریل کی طرح گھومنے لگی۔۔ رات جیسے تیسے کر کے گزاری اور دعا کی کہ جو کچھ بھی ہے !! بس بہتری کا معاملہ ہو۔

جاوید انکل نے ساری رات چھت اور پنکھے کو گھومتا دیکھ کر گزاری، آج مسجد کا مؤذن بھی پریشان تھا کہ جاوید انکل جو آواز دے کر اسد بھائی کو اٹھاتے تھے وہ آج ابھی تک کیوں نہیں پہنچے۔

عمیر دبیر کی دیگر تحاریر

استاد کی قومیت بھی اہم ہے… تحریر عمیر دبیر

نیپالی نوجوان، غلطی علامہ صاحب کی نہیں۔۔۔ تحریر: عمیر دبیر

حرکت قلب کی بندش، ایک سازش، تحریر عمیر دبیر

دوسری طرف آمران بھی اسی مخمصے کا شکار تھا کہ معلوم نہیں جاوید انکل کو کس نے کون سی بات بتا دی، وہ اس خوف میں تھا کہ کہیں ساری حقیقت عیاں نہ ہوگئی ہو، کروٹیں بدلتے اور صورتحال کو اپنے حق میں کرنے کی دعائیں کرتے ہوئے عمران نے رات بسر کی۔

فجر کی اذان کی اللہ اکبر ہوئی، عمران نے اُسی لمحے عہد کیا کہ وہ چاہیے جیسی بھی صورتحال ہو سچ ہی بولے گا، مگر اُس شخص کو بھی تلاش کرے گا جس نے اس بھید سے پردہ ہٹانے کی کوشش کی۔

فجر کے بعد دونوں کی ملاقات ہوئی، عمران کی آنکھوں میں اب نیند کی وجہ سے مرچیں لگنے لگی تھیں پھر بھی وہ مرکرزی دروازے کی آڑ میں ہی انتظار کرنے لگا، سورج کی کرنیں چھلکنا شروع ہوچکی تھیں۔

قسط نمبر ایک مکمل بقیہ اگلی قسط میں ۔۔۔۔۔

آپ بھی ہمیں اپنے کالم، بلاگ، افسانے، اشعار یا دیگر تحاریر ارسال کرسکتے ہیں، قلم اٹھائیں اور کسی بھی موضوع پر لکھ کر ہمیں بھیجیں، سلسلہ وار بھی تحاریر ارسال کی جائیں گی۔

Email: zaraye.news@gmail.com


نوٹ: بلاگر اور صارفین کی رائے سے ادارے کی پالیسی کا کوئی تعلق نہیں، نیز کمنٹس / تحاریر لکھنے والے افراد اپنے الفاظ کے مکمل ذمہ دار ہیں۔