شدت پسند تنظیم داعش اندرونِ‌ سندھ تک کیسے پہنچی؟

کراچی ( رپورٹ : ندیم اسلم ) ایڈیشنل آئی جی سکھر ڈاکٹر جمیل احمد نے کہا ہے کہ  دہشت گردی ہمارے لیئے ایک چیلنج ہے لیکن فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے ہم بلوچستان کے پہاڑی راستوں سے آنے والے دہشت گردوں اور گولہ بارود کی روک تھام کےلئے تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے سندھ میں دہشت گرد تنظیم داعش کا نیٹ ورک توڑا اور گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کے انکشافات کے بعد لاڑکانہ اور سکھر کے بائیس سے زائد داخلی و خارجی راستوں پر چیکنگ کا موثر انتظام بھی کردیا ہے۔

نمائندہ روزنامہ آزاد ریاست کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا گزشتہ دنوں شکارپور میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والا دہشتگرد عبدالحفیظ بروہی داعش کا آپریشن ہیڈ تھا جبکہ دوسرا ہلاک ہونے والا دہشت گرد عبدالله بروہی شکارپور میں اپنے نیٹ ورک کو مضبوط کرنے میں سربراہ کا کردار ادا کررہا تھا، ہلاک دہشت گردوں کے چار مزید اہم ساتھیوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے جنہوں نے اپنے درجنوں ساتھیوں اور متعدد ٹھکانوں کی نشاندہی کی ہے جن پر کام جاری ہے۔

انہوں نے کہا شکارپور کے علاقے دادڑ میں داعش کے سہولت کار بلوچستان کے پہاڑی راستوں سے پیدل آتی ہے اور خچروں پر ملحق ہتھیار و گولہ بارود لے کر آتے ہیں اور اس سلسلے میں دیگر اداروں کے ساتھ مل کر بھرپور کریک ڈاؤن کسی بھی وقت شروع کردیں گے۔ایڈیشنل آئی جی سکھر ریجن ڈاکٹر جمیل احمد نے انٹرویو کے دوران کہا کہ آٹھ اضلاع کے 237 سے زائد تھانہ جات میں دہشت گردی کے بعد قبائلی جنگ بڑا مسئلہ ہے جس میں سینکڑوں لوگ مارے جاچکے ہیں اور ہزاروں جیلوں میں موجود ہیں۔

انہوں نمائندہ آزاد ریاست کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ داعش کے جن دہشت گردوں کو ہلاک اور گرفتار کیا گیا ہے یہ لوگ درگاہ سیہون شریف درگاہ شاہ نورانی شکارپور امام بارگاہ  اور پولیس ہیڈ کوارٹر سمیت مختلف مقامات پر دہشتگردی کے واقعات میں 500 سے زائد افراد کو ہلاک کرنے اور سینکڑوں کو زخمی کرنے میں ملوث رہے ہیں۔ انہوں نے کہا اسٹریٹ کرائم تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے تاہم امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں پولیس کی موجودہ نفری 31 ہزار سے کچھ زیادہ ہے جو کہ کم ہے مزید 5000 نفری کےلئے آئی جی سندھ کو تحریری طور پر درخواست دی جاچکی ہے تاکہ صورتحال کو مزید مؤثر بنایا جاسکے۔ انہوں نے کہا جرم کی ایک قسم جسے کاروکاری کہا جاتا ہے جس کے تقریباً آئے دن روز مرہ کے واقعات سامنے آتے ہیں ڈیڑھ ماہ کی تعیناتی کے دوران جن پولیس اہلکاروں نے اچھے کام کیئے ان کو شاباشی کے ساتھ تعریفی اسناد دیئے جبکہ جن پولیس اہلکاروں و افسران کے خلاف عوامی شکایات موصول ہوئی ان کو سزائیں بھی دی گئیں۔