سوڈان میں فوجی حکومت آنے کے بعد سے مظاہرین سڑکوں پر تھے اور اُن کا مطالبہ تھا کہ اقتدار پر فوج قبضہ نہ کرے بلکہ اسے عوام یا سویلین کے حوالے کیا جائے۔
اطلاع آئی ہے کہ سوڈان کے مظاہرین اور فوجی حکمرانوں کے درمیان معاہدہ طے پاگیا جس کے تحت فریقین تین سال میں انتقال اقتدار پر متفق ہوگئے جبکہ یہ بھی طے پایا کہ اگلے 6 ماہ میں ملک میں موجود مختلف مسلح جنگجو گروپوں کو امن مذاکرات کے لیے تیار کیا جائے گا۔
معاہدے میں یہ بات بھی طے کی گئی کہ عبوری پارلیمنٹ میں دو تہائی نمائندگی مظاہرین کو دی جائے گی جبکہ اس کا دیگر حصہ ان جماعتوں کو دیا جائےگا جن کا عمر البشیر کی حکومت سے کوئی تعلق نہ رہا ہو۔
سوڈان میں عمرالبشیر کو صدارت سے ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی حکمرانوں نے اپوزیشن کے حمایت یافتہ مظاہرین سے 3 برسوں میں اقتدار مکمل طور پر سول انتظامیہ کے حوالے کرنے کے معاہدے پر اتفاق کر لیا۔ رپورٹ کے مطابق مذاکرات سول انتظامیہ کے حوالے کرنے اور فوجی حکمرانی کی توسیع پر اٹکے ہوئے تھے، تاہم اب دونوں فریقین اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ انتقال اقتدار 3 برس میں ہوگا۔
خیال رہے کہ سوڈانی فوج نے 4 ماہ کے عوامی احتجاج کے نتیجے میں 11 اپریل 2019 کو سابق صدر عمرالبشیر کی 30 سالہ طویل حکمرانی کو ختم کردیا تھا، لیکن اس کے باوجود عوامی احتجاج ختم نہ ہوا اور حکومت سول انتظامیہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ مزید مضبوط ہوگیا۔
معاہدے پر اتفاق کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں ملٹری کونسل کے رکن لیفٹننٹ جنرل یاسر العطا نے کہا کہ دونوں فریقین تین سال میں انتقال اقتدار پر متفق ہوگئے ہیں اور اگلے 6 ماہ کی ترجیحات میں سب سے پہلے نمبر پر ملک میں موجود مختلف مسلح جنگجو گروپوں کو امن مذاکرات کے لیے تیار کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین 300 ارکان پر مشتمل کمیٹی پر اتفاق ہوگیا، جو سول انتظامیہ کے لیے انتقال اقتدار پر کام کرے گی، عبوری پارلیمنٹ میں دو تہائی نمائندگی مظاہرین کو دی جائے گی جبکہ دیگر حصہ ان جماعتوں کو دیا جائے گا جن کا عمر البشیر کی حکومت سے تعلق نہ رہا ہو۔
ملٹری کونسل کے رکن کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں اب یہ بات طے کرنا ہے کہ خودمختار کونسل بنا دی جائے اور امید ہے کہ ایک دو روز میں اس معاملے پر بھی اتفاق ہوجائے گا۔ قبل ازیں مذاکرات کے دوران بھی احتجاج جاری تھا اور دو روز قبل تصادم کے دوران کم از کم 5 افراد مارے گئے تھے جن میں ایک فوجی افسر بھی شامل تھا جبکہ 200 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔مظاہرین کی جانب سے مذاکرات کرنے والے رکن مدنی عباس کا کہنا تھا کہ ملٹری کونسل اس حملے کی تفتیش کرے گی۔