تحریر: ( کاشف رفیق محسن )
ایک عام تاثر یہ ہے کہ بجٹ 2019 جو کسی صورت عوام دوست نہیں ہو سکتا تھا اس کے خلاف متوقع ردعمل کو غیر اہم کرنے کیلئے یا دوسرے الفاظ میں اس پر سے توجہ ہٹانے کیلئے کچھ مزید ” سیاسی بحران ” پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ مصنوعی سیاسی بحران پیدا کرنا انکے لیئے جنکا حسن کرشمہ ساز جب اور جو چاہئے کر سکتا ہے کبھی مشکل نہیں رہا جیسا کے گذشتہ تین برس سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ایک مصنوعی سیاسی بحران کی بلائے ناگہانی کا کچھ یوں شکار ہے کہ لگتا ہے یہاں تازہ تازہ آثار قدیمہ کی دریافت ہوئی ہے تعمیر کا پرچم سرنگوں ہے اور تخریب لوگوں کو بے گھر کر کے تعمیر کے جھنڈے بلند کر رہی ہے ۔ آصف زرداری جن پر ابھی تک فرد جرم بھی عائد نہیں کی گئی انھیں معزز عدالت سے ضمانت نہ ملنا اور انھیں ایسے وقت میں گرفتار کیا جانا جب وہ پہلے ہی حکومت کے خلاف احتجاج کی کال دے چکے تھے اور انکی گرفتاری پر ہونے والے احتجاج کی خبروں کے درمیان نیشنل مڈیا کی بریکنگ نیوز کہ ” ایم کیوایم کے بانی الطاف حسین کو لندن پولیس نے نفرت انگیز تقریر کے جرم میں گرفتار کر لیا ” اور اس کے بعد پورا دن اسی خبر کی گردان یہ سب عین اس وقت ہو رہا تھا جب موجودہ حکومت اپنا پہلا بجٹ پیش کر رہی تھی۔
رائے عامہ کا ان تمام واقعات کو بجٹ کے تناظر میں دیکھنا کچھ ایسا غلط بھی نہیں مگر حقیقت اسکے برعکس ہے۔ نیشنل مڈیا کی چابک دستی میں پمرا قوانین دھرے کے دھرے رہ گئے اور نام لینے پر پابندی کے باوجود نیشنل مڈیا کے تمام ہی قابل ذکر چینلز سارا دن الطاف حسین کی گردان کرتے رہے۔
بی بی سی سے ایک طویل رفاقت رکھنے والے پاکستان کے نہایت سینئر صحافی وسعت اللہ خان جن کا دل کراچی اور کراچی والوں کیلئے کبھی بھی وسیع نہیں رہا ان کی پھرتیاں تو قابل دید تھیں الطاف حسین کی گرفتاری کی خبر بریک ہونے کے صرف تین گھنٹے بعد انھوں نے ایک کالم لکھ مارا جس کا لب لباب یہ تھا کہ الطاف حسین کی گرفتاری کا ردعمل کراچی میں سامنے نہیں آیا اسکے علاوہ تیس برس تک وہ کراچی میں ڈھائے جانے والے جن ” مظالم ” پر حالت ” کوما ” میں رہے ایک ہی سانس میں سب بیان کر گئے ۔
غلط رپوٹنگ، عادل غفار کا جیو نیوز اور رپوٹر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان
اگلے ہی روز الطاف حسین ضمانت پر اپنے گھر آ گئے اور تازہ تازہ کومے اور سکتے سے باہر آنے والے تمام دانشوروں پر دوبارہ سکتہ طاری ہوگیا، تعصب تو ایک عام سی بیماری ہے جس میں پاکستان کا ہر دوسرا شخص مبتلا ہے مگر یہاں معاملہ اس پروفیشنل ازم کا تھا جہاں پورا سچ نہ سہی آدھا سچ تو سننے والوں اور پڑھنے والوں کا حق ہوا کرتا ہے ۔ سو مڈیا کے اس غیر پیشہ ورانہ رویہ سے جس طرح آج آدھے سے زیادہ پاکستان اس حقیقت سے بے خیر ہے کہ پی ٹی ایم کے قافلے نے فوجی چوکی پر حملہ کیا یا پی ٹی ایم کے قافلے پر فوجی چوکی سے فائرنگ کی گئی اسی طرح لوگ یہ جاننے بھی قاصر ہیں کہ الطاف حسین کیوں گرفتار ہوا اور کیوں اسے اگلے ہی روز رہا کر دیا گیا ۔
ایف اے ٹی ایف ایک بین الاقوامی ادارہ ہے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس جو پوری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف دہشت گرد تنظیموں کو کی جانے والی فنڈنگ اور سہولت کاری کے خلاف کام کرتا ہے اسکا مقصد یہ ہے کہ عالمی مالیاتی نظام کو دہشت گردی کے خطرات سے محفوظ رکھا جائے اس ادارے میں بہترین ریٹ رکھنے والے ممالک کے مالیاتی معاملات پر تمام بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا اعتماد ہوتا ہے۔
گذشتہ برس ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو اپنی گرے لسٹ میں شامل کر لیا تھا گرے لسٹ کا مطلب ہوتا ہے کسی ملک کو بلیک لسٹ کرنے سے پہلے انڈر آبزرویشن رکھنا اور اسے موقع فراہم کرنا کے وہ اپنے معاملات درست کر لے پاکستان سے کئی مطالبات کیئے گئے جن میں دہشت گرد تنظیوں پر پابندی اور انکے اثآثوں کی چھان بین جیسے معاملات بھی شامل تھے ۔ داعش ، حقانی نیٹ ورک ، القاعدہ ، جیش محمد، لشکر طیبہ ، جماعت الدوات اور فلاح انسانیت فاونڈیشن پر مکمل پابندی اور انکے معالی معاملات کی کڑی نگرانی کا بھی کہا گیا ابتدائی طور پر پاکستان کو دس نکاتی ایجنڈا دیا گیا جس میں بعد ازاں اضافہ ہوتا رہا ۔ ایف اے ٹی ایف کے مطالبات میں یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ پاکستان سے نہ صرف دہشت گرد تنظیموں کا صفایا کیا جائے بلکہ لبرل اور روشن خیال سیاسی تنظیوں کو بحال کیا جائے ایجنڈے کے نکات میں بحالی کے ضمن میں ایم کیوایم اور اسکی قیادت کا نام بھی شامل تھا۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آئی ایم ایف سمیت کوئی بھی بین الاقوامی مالیاتی ادارہ کسی ایسے ملک کو قرض نہیں دے سکتا جسے ایف اے ٹی ایف بلیک لسٹ کر دے پاکستان کے پاس 30 مئی 2019 ڈیڈ لائن تھی ایف اے ٹی ایف کے تمام مطالبات پر اپنی اطمنان بخش کاروائی کے ثبوت جمع کروانے اور اپنا نام گرے لسٹ سے نکلوانے کی جبکہ آئی ایم ایف سے موجود 6 ارب ڈالر کے معاھدے کی پہلی قسط ہمیں جولائی میں ملنی ہے جس سے پہلے ہمیں ایف اے ٹی ایف کا ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ ایف اے ٹی ایف نے ڈیڈ لائن میں اضافہ کیا ہے مگر آئی ایم ایف سے قرضے کی وصولی اس فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے مطالبات پورے ہونے سے قبل شائد ممکن نہ ہوسکے۔
الطاف حسین کے خلاف ناکامی شواہد، لندن پولیس کی تفتیش مکمل، بانی ایم کیو ایم رہا
آصف زرداری اور نواز شریف کی بحالی اسٹیبلشمنٹ کیلئے کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا البتہ ایم کیوایم کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کہ کچھ تحفظات موجود تھے جن میں سب سے بڑا مسئلہ چین سے کیے گئے سی پیک کے معاہدے کا تھا اور یہ چین کی خواہش تھی کہ کراچی میں کسی سیاسی جماعت کی مونو پلی ( اجارہ داری ) نہ ہو۔
چین کے مستقبل کے عزائم کیا ہیں یہ ایک بلکل الگ موضوع ہے مگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کیلئے اب تک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں پر پابندی کا سنگ میل تو قریب قریب انھوں نے عبور کر لیا مگر روشن خیال سیاست کو کس طور بحال کیا جائے؟
الطاف حسین پر کوئی ایسا قابل ذکر الزام نہیں جسے پاکستان کی کسی عدالت میں کبھی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہو لندن میں چلنے والے منی لانڈرنگ اور عمران فاروق قتل کیس میں وہ پہلے ہی بریت پا چکے ہیں لہذا حکومت کی برطانوی حکومت سے سفارتی سطح پر درخواست کے بعد اسکاٹ لینڈ یارڈ نے 22 اگست 2016 کو کی گئی الطاف حسین کی آخری تقریر کا کیس اوپن کیا اور لندن پولیس انکا موقف حاصل کرنے کیلئے انھیں پولیس اسٹیشن لے گئی جہاں اگلے ہی روز انھیں کیس میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
برطانیہ میں قانون کی عمل داری ہے اگر حکومت سفارتی سطح پر کی گئی درخواست پر کوئی کیس اوپن بھی کرتی ہے تو بنا میرٹ کے اس پر سزا تو دور کی بات فرد جرم عائد کرنا بھی ممکن نہیں، لندن پولیس اپنی تحقیق مکمل کرنے کے بعد تمام ثبوت اور شواہد کراون پراسیکوشن سروس کے حوالے کرے گی جو لندن پولیس کے شواہد کی روشنی میں یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا کیس میں اتنی جان ہے کہ اسے عدالت میں چلایا جا سکے ؟ تب کہیں جا کر فرد جرم عائد کر کے مقدمہ قائم کیا جاتا ہے ورنہ کراون سروس فائل اعتراض کے ساتھ واپس لندن پولیس کے حوالے کر دے گی اور کیس ختم کردیا جائے گا۔
22 اگست کی تقریر میں درجنوں ایسے پہلو ہیں جنھیں مکمل سیاق و سباق کے حوالے سے جب پرکھا جائے گا تو فرد جرم کا سوال باقی نہیں رہے گا، تقریر کا کیس کیونکہ حکومت پاکستان اور حکومت برطانیہ کی مشترکہ کاوش ہے لہذا اسکا جو فیصلہ بھی آئے گا اسے جس طرح برطانیہ میں تسلیم کیا جائے گا اسی طرح پاکستان میں بھی تسلیم کرکے الطاف حسین پر سے تحریر اور تقریر کی پابندی ہٹانا لازم ہو جائے گا۔
لندن میں گرفتاری کے بعد الطاف حسین سے تفتیش کے لیے ایف آئی اے ٹیم تشکیل
ممکنات میں سے ہے کہ نیشنل مڈیا پر الطاف حسین کا نام نشر کرنے کے پیچھے یہی حکمت عملی رہی ہو اور جس شدت سے ایم کیوایم کے خلاف پراپگینڈا مشنری کے ذریعے گراونڈ بنایا گیا تھا اس موقف سے پیچھے ہٹنے کیلئے ماحول بنایا جارہا ہو ۔ وسعت اللہ خان صاحب شائد کبھی کراچی کی گلیوں کوچوں میں گئے نہیں اس لیئے گراس روٹ لیول پر کیا سوچ پائی جاتی ہے اس سے نا آشنا ہیں نا ہی کراچی کے عوام کے سیاسی شعور کا انھیں فی الواقع اداراک ہے لہذا انھیں الطاف حسین کی گرفتاری پر کراچی کا رد عمل کچھ مختلف سا لگا تو اس میں انکا قصور نہیں قصور ہے تو صرف اتنا کہ ایک نشیبی علاقے کی تنگ و تاریک گلی میں گوشہ نشین یہ درویش جو معلومات رکھتا ہے وسعت اللہ خان صاحب کے پاس اس سے کئی گنا زیادہ معلومات کے ذرایع موجود ہیں اور معلومات کو اپنے قاری تک نہ پہنچانا پیشہ ورانہ بددیانتی ہے جسے برتنے والے مظہر عباس اور وسعت اللہ جیسے سنئیر ترین صحافی ہوں تو اسے المیہ ہی کہا جاسکتا ہے ۔