بے رنگ زندگی ۔۔۔۔۔ تحریر کامران وسیم

پاکستان کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست میں 12واں نمبر ہے اور پاکستان کا ہر شہری تقریباً ایک لاکھ روپے کا مقروض ہے جس کا سسہرہ یقیناً ماضی کی ہر حکومت اور حکمران کے سر جاتا ہے پھر چاہے وہ سول حکومت ہو یا ڈکٹیٹر شپ۔

غریب ملک ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات پاکستان کے ہر شہری پر ہوتے ہیں خاص کر غریب افراد کی روز مرہ کی زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ پاکستان میں مزدور طبقے کی کم از کم تنخواہ 16ہزار ہے اور مہنگائی ہے جوکہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی آٹا ہو دال، چاول یا چینی تقریباً تمام ہی اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں جس کی وجہ سے غریب افراد کو دو وقت کی روٹی بھی بمشکل نصیب ہوتی ہے اور جو افراد غربت کی لکیر سے بھی نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں انکا تو اللہ ہی حافظ ہے۔

تعلیم،صحت اور روزگار دینا ملکی حکومتوں کی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنے میں پاکستان کی 72سالہ تاریخ کی تمام حکومتیں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہیں۔تعلیم اور صحت کے شعبوں کی حالت انتہائی ناقص ہے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیئے دوائی میئسر نہیں اور اسکولوں میں بلڈنگیں تو بڑی بڑی دکھائی دیتی ہیں لیکن تعلیم کا حال انتہائی خراب ہے کسی اسکول کی چھت غائب ہے اور اگر چھت موجود ہو تو پنکھے نہیں اور اگر پنکھے بھی موجود ہوں تو لائٹ نہیں ہوتی ایسی صورتحال میں غریب افرادجوکہ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور آراستہ کرانا چاہتے ہوں تو یقیناً انہیں پرائیوٹ اسکولز مافیا ں میں بھیجنا پڑتا ہے جہاں تعلیم تو ملتی ہے لیکن کاروبار کی شکل میں,جس اسکول کی جتنی زیادہ فی ہوں اتناہی زیادہ تعلیمی نظام بہتر ہوتا ہے ایسی صورتحال میں غریب افراد اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں تاکہ جو مشکلات آج انہیں اٹھانی پڑی ہیں کل انکے بچوں کو نہ اٹھانی پڑے جبکہ ہم یہ بھول جاتے ہیں صرف بچوں کو پڑھانے سے حالات نہیں بدلتے اگر حالات بدلنا ہے تو ہمیں اپنا آج بہتر کرنا ہوگا جوکہ بہتر حق راہ دہی کے استعمال کے ساتھ ساتھ ایک شہری کی ذمہ داری پوری کرنے سے ہوگا جس کے لیئے عوام میں شعور کو پیدا کرنا ہوگا جس میں میڈیا کا کردار بھی انتہائی اہمیت کا حا مل ہے۔

آئیں ہم سب مل کر اپنا اور اپنے بچوں کا آج اور کل بہتر کرنے کے لیئے ساتھ مل کر کام کرنا کا اعادہ کریں اور اپنے ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کریں اور بے رنگ زندگی کو رنگوں کی بہاروں سے بھردیں۔