جو بویا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ کاٹیں گے، تحریر فیاض قائم خانی

ایم کیو ایم کا قومی اسمبلی میں بل، پاکستانیت بچانے کی طرف ایک قدم، جب زمین کی تقسیم ہی لسانیت اور عصبیت پر کی گئی تو ایک قوم کا نعرہ مارنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ بھی نہیں، کسی بھی فیڈریشن کو اس کے یونٹ مضبوط کرتے ہیں, دوسرے الفاظ میں فیڈریشن بنتی ہی جب ہے جب اس کے یونٹ ایک مضبوط بندھن میں بندھے ہوں، پنجاب…پنجاب میں پنجابی اور سرائیکی لڑ رہے ہیں، کے پی کے… پٹھان, ہزارہ وال اور قبائلی جو خود کو افغان بولتے ہیں دست و گریباں ہیں، بلوچستان….بلوچ اور پشتون یوم آزادی سے علیحدہ علیحدہ حق جتا رہے ہیں، سندھ….مہاجر اور سندھی دو مختلف لسانی گروپ ہیں, باوجود مہاجر کی کوشش کے آج تک سندھی نہ سمجھا گیا,جیسے کسی نے بنگالی کو کبھی پاکستانی نہیں سمجھا۔

یہ ہے آج کی وہ حقیقت جو 23 مارچ اور چودہ اگست کو پاکستانیت کا لبادہ اوڑ لیتی ہے, لیکن پورا ملک لسانیت پر بٹا ہوا ہے, ایسے ماحول میں 72 سال سے پسیے ہوئے ایک طبقے نے آج اپنی آواز اٹھائی ہے تو چاروں طرف ایک شور برپا ہے۔ کیا اس ملک میں صرف چار زبانیں بولنے والی قومیں رہتی ہیں جن کے نام پر اس ملک کے صوبے بنا دیئے گئے, کیا اس لسانیت کا نتیجہ بنگلادیش کی شکل میں ہمارے سامنے موجود نہیں ہے, کیوں ہمارے صاحب اختیار مٹی میں منہ دبائے پڑے ہیں, کیا تاریخ سے سبق حاصل نہ کرنے کی قسم کھائے بیٹھے ہیں۔

پاکستان میں بسنے والی تمام قوموں کی تناسب کا تجزیہ کر لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے کھڑی ملے گی کہ جن چار قوموں اور زبان کی بنیاد پر صوبے بنائے گئے تھے وہ پاکستان کی کل آبادی کا بامشکل 50 فیصد بنے گے, باقی 50 فیصد قومیں اپنی شناخت گزشتہ 72 سالوں سے ڈھونڈ رہی ہیں, ایک بڑی لسانی آکائی اسی معاشرتی ناانصافی کی وجہ سے علیحدہ ہو گئی۔ میرے نزدیک تو یہ انتظامی یونٹ والا مطالبہ اب کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ بات اب اس خیال سے بہت آگے نکل چکی ہے, تمام صوبوں میں تقریبآ یکساں صورتحال ہے, کہیں زیادہ تو کہیں کچھ تپش کم ہے, لیکن یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ پاکستان میں 50 فیصد قوموں میں بے چینی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

18 ویں ترمیم کے بعد جہاں اختیارات نچلی سطع تک پہنچنے چاہئے تھے اور مضبوط یونٹ ایک مضبوط فیڈریشن کی بنیاد بنتے, لیکن اسی عصبیت اور لسانیت کی تقسیم نے فیڈریشن کو تو کمزور کیا ہی ہے وہاں صوبوں میں بسنے والی دیگر قوموں میں بیزاری, بے چینی اور احساس محرومی کو اپنی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ پاکستان میں اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں پائی جانے والے اس احساس محرومی کو ختم ہونا چاہئے, یہ لسانیت کی بنیاد پر بنائے جانے والے صوبوں کی جغرافیہ کو تبدیل ہونا چاہئے, دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح شہروں کے نام پر صوبوں کے نام رکھ کر چھوٹے چھوٹے صوبے بنانے چاہئے, تاکہ ملک سے عصبیت اور لسانیت کو ختم کیا جا سکے۔

صوبہ سندھ…..کراچی، حیدرآباد، سکھر

پنجاب…لاہور, ملتان, راولپنڈی, فیصل آباد, راجن پور, اسلام آباد

کے پی کے…پشاور, ایبٹ آباد, ڈیرہ

بلوچستان….کوئٹہ, گوادر.. لسبیلہ,

گلگت….گلگت, بلتستان

یہ ایک مثال کے طور پر لیا جاسکتا ہے, کہ اس طرح چاروں لسانی بنیاد پر قائم صوبوں کو توڑ کر شہروں کی بنیاد پر نئے صوبے بنائیں جائیں تاکہ فیڈریشن کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ پاکستانیت کو بھی عروج حاصل ہو اور ہم ایک قوم بن سکیں….

اپنا تبصرہ بھیجیں: