جامعہ کراچی میں بہت ساری طلباء تنظیمیں سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں جن کے بارے میں مثبت اور منفی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں۔
اگر موجودہ صورتحال کی بات کی جائے تو امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، تحریک انصاف کی انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن دیگر کے مقابلے میں زیادہ اثرورسوخ رکھتی ہیں مگر یونیورسٹی میں دو طلبا تنظیموں کو ایک دوسرے کا حریف سمجھا جاتا ہے۔
اسلامی جمیعت طلبہ اور اے پی ایم ایس او (آل پاکستان متحدہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کے درمیان طویل عرصے سے سیاسی نظریے کی بنیاد پر ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں، ایم کیو ایم کے ٹکڑے ہوجانے کے بعد پاک سرزمین پارٹٰ کی بھی طلبہ تنظیم نے جامعہ میں انٹری دی جس میں اے پی ایم ایس او کے سابق کارکنان یا ذمہ داران موجود ہیں۔
اے پی ایم ایس او نے ہر قسم کے حالات کے باوجود کم یا زیادہ کارکنان کے ساتھ خود کو زندہ رکھا ہوا ہے جبکہ اسلامی جمعیت طلبا طویل عرصے سے جامعہ میں متحرک ہے۔ ایڈمیشن، امتحانات کے معاملے میں اکثر دنوں جماعتوں کے کارکنان الجھتے بھی نظر آتے ہیں۔
ایک روز قبل ملک بھر میں طلبا یونینز کی بحالی کے حوالے سے احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں جن کی تمام جماعتوں نے حمایت کی مگر اسلامی جمیعت طلبہ دوسری طرف مخالفت میں نظر آئی۔
سما ٹی وی سے وابستہ رپورٹر اور جامعہ کراچی سے پاس آؤٹ طالب علم روحان احمد نے طالب علموں کا جمیعت کی طرف جھکاؤ نہ ہونے اور اے پی ایم ایس او کے پیش آنے کی وجہ تحریر کی اور اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو بھی بتایا۔
روحان نے لکھا کہ ’میرے بہت سارے ایسے دوست جنہیں سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی انہوں نے پہلے ہی سال میں اسلامی جمعیت طلبہ کے شرپسندوں کے خوف سے اے پی ایم ایس او میں شمولیت کی، جب یونیورسٹی میں 2011 کو میرا پہلا دن تھا تو جمیعت کا ایک کارکن آیا اور اُس نے ایئرفون چھین کر کہا کہ یہاں میوزک سننے کی اجازت نہیں ہے۔‘
Many of my friends, who had no interest in politics at all, ended up joining APMSO at KU in our 1st year because they were scared of Jamiat's moral police. On my very first day in 2011, a guy snatched my earphones because he didn't like seeing students listening to music in dept
— Roohan Ahmed (@Roohan_Ahmed) November 30, 2019
’میں ایک روز اپنی کلاس کے دوستوں کے ساتھ محمود الحسن لائبریری کے باہر تھا تو اسی دوران جمعیت کے لڑکے آئے اور انہوں نے لڑکیوں کو وہاں سے فوری جانے کی ہدایت کی، بعد میں ہمیں بولا کہ اگر آئندہ کسی لڑکی کے ساتھ گھومتے یا بیٹھے دیکھا تو منہ توڑ دیں گے‘۔
A few months after I joined KU (2011), I was sitting with a few friends outside Mehmood-ul-Hassan library. Jamiat boys came and asked girls to leave and then we were told "chamaat maar kar mu tor daingy agar ainda yahan kisi larki k sath bethy dekha to".
— Roohan Ahmed (@Roohan_Ahmed) November 30, 2019
انہوں نے لکھا کہ ’بہت سارے لڑکے اے پی ایم ایس او میں اس لیے شمولیت اختیار کرتے ہیں کیونکہ اساتذہ کی نظر میں تنظیم کے لڑکے اچھے اور نظم و ضبط والے ہیں، البتہ اُن میں سے کچھ ہیں جنہوں نے پڑھائی کے بجائے دیگر کاموں بدمعاشی، لڑائی جھگڑے پر توجہ دی اور اب تک امتحانات کلیئر نہیں کیے‘۔
APMSO guys. Most of them joined the group because they thought teachers would give them good marks bcz they're APMSO. Many of them haven't graduated because they're too busy with 'extra-curricular' activities — Badmashi, Larai Jhagray. V need rules, discipline & Unions to fix it
— Roohan Ahmed (@Roohan_Ahmed) November 30, 2019
روحان نے لکھا کہ ہمیں قوانین اور نظم و ضبط کی ضرورت ہے جو صرف طلبا یونینز بحال ہونے کی صورت میں ہی ممکن ہے‘۔