10 سال بعد ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کا فیصلہ جاری
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ایم کیو ایم کے کنوینئر ڈاکٹر عمران قتل کیس کا فیصلہ سنادیا۔
اسلام آباد کی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کی سماعت ہوئی، جس میں ملزمان کے اہل خانہ شریک ہوئے جبکہ ملزمان کو اڈیالہ سے بذریعہ ویڈیو لنک حصہ بنایا گیا، اس موقع پر استغاثہ کے وکیل اور ایف آئی اے کے افسران بھی عدالت میں موجود تھے۔
اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے عمران فاروق قتل کیس کے تینوں گرفتار ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی کو عمر قید کی سزا سنا دی۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت اسلام آباد کے جج جسٹس شاہ رخ ارجمند نے عمران فاروق قتل کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا جبکہ بانی متحدہ اور افتخار حسین ، اشتہاری ملزمان محمد انور اور کاشف کامران کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔
عدالتی فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم کو عمران فاروق قتل میں معاونت، سازش اور سہولت کاری کی بنا پر مجرم قرار دیا گیا ہے،
اس موقع پر پراسیکیوشن ٹیم اور وکلائے صفائی بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھے جبکہ گرفتار ملزمان کو اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتی کارروائی کا حصہ بنایا گیا۔ دوران سماعت پراسیکوٹر نے کہا تھا اشتہاری ملزمان بانی متحدہ ،انور حسین کیخلاف ٹھوس شواہد ہیں، ملزمان کا تعلق بھی ایم کیو ایم سے تھا، ملزمان جرم کے مرتکب ہوئے،قانون کے مطابق سزادی جائے۔
عمران فاروق قتل کیس، بانی ایم کیو ایم کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے
ایف آئی اے پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز احمد کا دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ قانون کے مطابق پاکستان میں کیس چلانے کی اجازت ہے، برطانوی حکومت کو شواہد میں صرف سزائے موت پر اعتراض تھا،برطانوی حکومت کو یقین دلایا گیا کہ ملزمان کو سزائے موت نہیں دی جائے گی۔
اڈیالہ جیل میں قید ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی نے کیس کا فیصلہ ویڈیو لنک کے ذریعے سنا، جبکہ ملزمان کے اہلِ خانہ فیصلہ سننے کے لیے کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔ واضح رہے کہ عدالت نے سماعت مکمل کر کے کیس کا فیصلہ 21 مئی کو محفوظ کیا تھا۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے کہ انہیں گرین لین کے قریب واقع ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا، حملے کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے۔
برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے گئے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاونڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔
عمران فاروق کی 9ویں برسی پر اہلیہ کا اہم اعلان، بڑے تہلکہ خیز انکشافات متوقع
بعد ازاں ایف آئی اے نے 2015ءمیں عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شبہ میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینئر رہنماوں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا اور اسی سال محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو بھی قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔
عدالتی فیصلے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ملزمان کی سزا کا اطلاق گرفتاری کے روز سے ہوگا یا آج کے بعد سے کیونکہ ان تینوں کو گرفتار ہوئے تقریباً ساڑھے 9 سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔