طلبہ یونینز، طلبہ کا حق ۔۔۔۔۔تحریر: کائنات فاروق
موروثی سیاست، ان پڑھ حکمران، جاگیردارانہ نظام اور ایسے کی سارے مسائل کے بارے میں ہم روز ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ٹاک شوز میں سنتے ہیں۔
مختلف تجزیہ نگار اور سیاسی ماہرین ان مسائل کے حوالے سے اپنے آراء پیش کرتے ہیں مگر عملی طور پر یہ مسائل ختم ہونے کے بجائے دن بدن اور بڑھ رہے ہیں جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم ان پر بات تو کرتے ہیں لیکن جن وجوہات کی وجہ سے سیاسی نظام میں خرابیاں پیدا ہوئی ہیں اُن پر بات نہیں کرتے۔ ان وجوہات میں سرفہرست طلبہ یونین پر پابندی ہے۔
طلبہ یونین کی ضرورت اور فوائد پر بات کرنے سے پہلے میں یہ بات واضح کرنا چاہتی ہوں کہ اس یونین کا ہونا ہے طالب علم کا آئینی حق ہے، جس کا ضامن دستور پاکستان کا آرٹیکل نمبر 17 ہے۔
طلبہ یونین کے خلاف لوگوں کو عام تاثر دیا گیا ہے کہ ان یونینز سے پڑھائی متاثر ہوتی ہے اور تعلیمی اداروں میں شروفساد پیدا ہوتا ہے جو کہ ایک غلط تاثر ہے، ہے تاثر نوجوان طبقے خاص طور پر طلبہ کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے سازش کے طور پر دیا گیا ہے۔
طلبہ یونین اور طلبہ سیاست دوسرے غیر نصابی سرگرمیوں کی طرح ایک سرگرمی ہے جس سے طلبہ کی سیاسی تربیت ہوتی ہے۔ ان یونین سے طلبہ کو جمہوری پریکٹس کا موقع ملتا ہے، طلبہ کو مثبت بحث و مباحثے کا موقع فراہم ہوتا ہے، یونین طلبہ کی تحقیقی صلاحیتوں کو سامنے لانے میں مدد کرتی ہیں، اُن کو بولنے اور لکھنے کا انداز سکھاتی ہیں، طلبہ یونینز مختلف علاقوں اور مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو متحد کرتی ہیں اور اُن کو اپنے مطالبات پیش کرنے، قانونی طریقے سے اپنے مطالبات تعلیم کروانے کے لیے ریاست پر دباؤ ڈالنے اور اختیارات کا صحیح استعمال کرنے کا ہنر سکھاتی ہیں۔
اس کے علاوہ یونین طلبہ کو انتخابی نظام سے آشنا کرواتی ہیں اور امیر غریب کی تفریق کیے بغیر تمام طلبہ کو قومی اور عالمی سیاست میں حصہ لینے کے يكساں موقع فراہم کرتی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں ہر موقع پر طلبہ نے ملک کی فلاح کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے، تحریک پاکستان کے وقت طلبہ تنظیموں کا بہت مؤثر کردار رہا ہے۔ آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن اور مسلم گرلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے تحریک پاکستان کا پیغام مختلف مطالعاتی سرکلز کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہی طلبہ جمہوریت کی بقاء کے لیے ہر دور میں پیش پیش رہے ہیں۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے وقت جب ملک میں تمام سیاسی جماعتوں کی ہر قسم کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی تو اس وقت بھی طلبہ نے متحد ہو کر جمہوریت کی بقاء کے لیے جدوجہد کی اور مارشل لاء کا خاتمہ کیا۔
سنہ 1978 میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کر کے طلبہ یونینز اور طلبہ تنظیموں پر پابندی لگادی، اس پابندی کا مقصد طلبہ کی اُس طاقت کو توڑنا تھا جس کے ذریعے انہوں نے ایوب خان کی حکومت ختم کی تھی، 1993 ۶ میں سپریم کورٹ نے بھی طلبہ تنظیم پر پابندی لگادی جس کے بعد یونینز تاحال بحال نہ ہو سکیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے طلبہ اپنے اس آئینی حق کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ طلبہ ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں یونین کے حوالے سے مطالعاتی سرکلز اور ریلیاں منعقد کر رہے ہیں جس کے ذریعے یہ ایک طرف طلبہ کو اُن کے آئینی حقوق کے بارے میں آگاہ کررہے ہیں اور تو دوسرے طرف ریاست پر یونین کی بحالی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
طلبہ کو ملک کا مستقبل تصور کیا جاتا ہے، اگر ہم پاکستان کا مستقبل روشن اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں مِل کر طلبہ یونین کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی، ریاست کو بھی یہ بات تسلیم کرنے ہوگی کہ ملک کی ترقی کے لیے طلبہ یونین کی موجودگی لازمی ہے، تا کہ طلبہ یونین کے ذریعے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کریں اور ان صلاحیتوں سے ملک کو فائدہ پہنچائیں۔
نوٹ: آپ اپنی خبریں، پریس ریلیز ہمیں ای میل
zaraye.news@gmail.com پر ارسال کرسکتے ہیں، علاوہ
ازیں آپ ہمیں اپنی تحاریر / آرٹیکل اور بلاگز / تحاریر / کہانیاں اور مختصر کہانیاں بھی ای میل کرسکتے ہیں۔ آپ کی بھیجی گئی ای میل کو جگہ دی جائے گی۔