کراچی : سوشل میڈیا ایپ کے ذریعے والد کے قتل کے ملزم کو تلاش کرنے سے متعلق مقتول کی بیٹی نے ملزم کی گرفتاری کے لیے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔
سندھ ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں ماہم امجد نے موقف اختیار کیا کہ سیشن جج جنوبی نے 2010 میں ملزم سید تقی حیدر شاہ کو اشتہاری قرار دیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملزم کی گرفتاری کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیئے۔
اشتہاری ملزم کی گرفتاری کے لیے ڈیٹا انٹر پول سے بھی شئیر نہیں کیا گیا۔ 27 ستمبر 2022 کو ٹرائل کورٹ میں درخواست دائر کرکے ملزم کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کروائے گئے تھے۔ ماتحت عدالت نے ملزم تقی حیدر شاہ کا پاسپورٹ بھی بلاک کرنے کا حکم دیا۔ ملزم کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرنے لیے ایف آئی اے کو ہدایت جاری کی جائیں۔
ٹرائل کورٹ نے اس حوالے سے کوئی احکام جاری نہیں کیئے۔ ملزم کی گرفتاری کے لیے ایف آئی اے نے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
ملزم نے اپنے شناختی کارڈ کی 7 نومبر 2022 کو تجدید کرالی۔ درخواستگزار کی کوششوں سے ملزم کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ 24 نومبر 2022 کو بلاک ہوا۔
ایف آئی اے اور پولیس کو ہدایت جاری کی جائیں وہ یو اے ای سے ملزم کی حوالگی کا مطالبہ کریں۔
درخواست دائر کرنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ماہم امجد نے کہا کہ سب کو معلوم ہے اور سوشل میڈیا پر بھی یہ معاملہ بہت چلا کہ 15 سال بعد یو اے ای میں، اپنے والد کے قاتل ملزم سید تقی شاہ کو گرفتار کرایا تھا۔ پورے پاکستان میں یہ معاملہ بہت معروف ہے۔
ماہم امجد نے کہا کہ پہلے ملزم کو دبئی میں گرفتار کرایا۔ انٹرپول پولیس نے 4 مہینے رکھا اور بیل دے دی۔ کیونکہ وہ ملزم کو اس سے زیادہ رکھ نہیں سکتے تھے۔
ماہم نے کہا کہ میری جان کو خطرہ ہے، ملزم نے ویڈیو بیان کے ذریعے مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔ اس کے اہلخانہ یو اے ای میں رہتے ہیں اور میں بھی وہیں رہتی ہوں، مجھے مسلسل دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ماہم امجد نے کہا کہ اس تمام معاملے کے باجود قونصلیٹ، وزارتِ خارجہ اور محکمہ داخلہ سندھ کوئی کام کرنے کو تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی سفیر کے ساتھ رابطے میں تھی۔ یو اے ای حکام نے ملزم حوالگی کے حوالے سے دستاویزات نامکمل ہونے پر واپس بھجوادیئے۔ لیکن پاکستانی سفیر اور قونصلیٹ نے ہمیں آگاہ نہیں کیا۔ 30 دن کا ٹائم تھا کہ اگر وہ مجھے بتادیتے تو فائل مکمل کرکے یو اے ای کو بھیجتے تاکہ ملزم کو پاکستان لایا جاسکتا۔
ماہم امجد نے الزام لگایا کہ جان بوجھ کر یہ پوری ڈیڈ لائن مس کروائی گئی۔ میں یو اے ای کی رہائشی ہوں، ہم نے کوششیں کرکے یو اے ای سے مزید ٹائم مانگا ہے۔ 3 ہفتے سے محکمہ داخلہ سندھ کے پاس حوالگی سے متعلق دستاویزات موجود ہیں، جسے وزارتِ داخلہ کو نہیں بھیجا جارہا۔ مجھے دبئی سے کراچی آنا پڑرہا ہے، وقت آگیا ہے کہ ادارے نااہلی ختم کریں۔