تحریر : رضوان احمد فکری
خدمت خلق عین عبادت ہے۔فلاح و بہبود کا کام تو دنیا کر رہی ہے لیکن کچھ اداروں کی خدمات قابل تحسین ہیں جn میں ایدھی، چھیپا، الخدمت ، خدمت خلق فاؤندیشن ، سٹیژن فاؤنڈیشن، ہینڈز، انڈس، جعفریہ ڈیزاسسٹر مینجمنٹ، سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ، امن، SIUT ، المصطفی ٹرسٹ جیسے ادارے سر فہرست ہیں۔
فلاحی ادارے کسی بھی ملک کی دکھتی رگ ، دکھی انسانیت کی خدمت ، قوموں کو مشکلات سے نکالنے کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں چھوٹے بڑے متعدد ادارے ہیں جو کسی بھی مشکل وقت میں قوم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اس میں کمیونٹی کی بنیاد پر بننے والے ادارے بھی ہیں جس میں میمن کمیونٹی، بوہری کمیونٹی ، مختلف برادریز بھی شامل ہیں۔
ملک میں ہنگامی اور تباہ کن صورتحال میں یہ ادارے جس طرح کردار ادا کرتے رہے ہیں وہ قابل رشک ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاسی جماعت ایسی بھی ہے جسکا خدمت خلق کا شعبہ پہلے وجود میں آیا پھر انہوں نے سیاسی جدوجہد شروع کی۔
یہ سیاسی جماعت مہاجر قومی موومنٹ تھی۔ جبکہ اسکا شعبہ خدمت خلق 1978میں معرض وجود میں آچکا تھا، یہ شعبہ خدمت خلق کمیٹی کہلاتا تھا۔ جسکے ہر سال امدادی پروگرام المدینہ ہال ، دھنک ہال، پی آئی بی کمیونٹی ہال مین پی آئی بی، ناظم آباد، لیاقت آباد میں منعقد ہوتے تھے۔
اس کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس کے لئے امداد طالب علم جمع کرتے تھے اور غریب و نادار طلبہ و طالبات کی بھی مدد کی جاتی تھی جبکہ رمضان المبارک میں غریب و نادار افراد کو راشن و دیگر اشیاء بھی تقسیم کی جاتیں تھی۔
میں نے ازخود1979سے یہ کام کرتے دیکھا۔ اپنی بساط کے مطابق یہ ادارہ جو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن APMSO سے منسلک تھا اس کی کارکردگی دیگر بڑے اداروں سے بہت بہتر رہی اور سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ انہوں نے بلاتفریق، رنگ و نسل کل بھی مستحقین کی خدمت کی اور آج بھی یہ سلسلہ تھوڑا بہت جاری ہے جبکہ اسوقت یہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ بن چکی ہے۔
سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان ، جبکہ شوکت خانم میوریل ٹرسٹ تحریک انصاف سے جوڑا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کی خدمات اپنی جگہ لیکن ایک غیر مستحکم ، غریب جماعت کا خدمات انجام دینا اسے منفرد کرتا ہے۔ خدمت خلق کمیٹی اے پی ایس او کے قیام سے پہلے سے متحرک تھی۔ APMSOکے قیام کے بعد غریب طلبہ و طالبات کی فیسوں کی ادائیگی، وظیفوں کی ادائیگی، یونیفارم اور مالی امداد پیش پیش تھی۔ کسی مخیرشخص کی انہیں مدد حاصل نہیں تھی وہ انسانیت کے جزبے کے تحت یہ سارے کام کر رہے تھے جس میں چیئرمین و بانی اے پی ایم ایس او الطاف حسین اے پی ایم ایس او، شاہد لطیف، عزرا تسنیم ، نفیس فاطمہ، عظیم احمد طارق، سید امین الحق، سلیم شہزاد، طارق جاوید، زرین مجید، طارق مہاجر ، ڈاکٹر عمران فاروق، فاروق ستار، محمد عامر خان ، ریحان عمر فاروقی، جاوید اختر، ایس ایم طارق، شاہد مہاجر، جمال الدین سعید، مجتبی خان ، شیخ جاوید ، احمد سلیم صدیقی ، بدر اقبال، آفاق احمد، خالد سلطان ، رقیہ ، روبینہ ، الطاف کاظمی، فہیم فاروقی و دیگر اس کا حصہ تھے۔
اس طرح جب 18مارچ 1984کو جب مہاجر قومی موومنٹ قائم ہوئی تو اس جماعت نے عوام کی خدمت کے لئے خدمت خلق کمیٹی کو خدمت خلق فاؤنڈیشن کا درجہ دیا اور اسکا دائرہ کار پورے ملک میں پھیلا دیا۔ 2005کے زلزلہ میں 8اکتوبر 2005کو سب سے پہلے ایم کیو ایم کی خدمت خلق فاؤنڈیشن پہنچی اور پر خطر علاقوں میں بھی ریلیف کا کام سر انجام دیا۔
سندھ کے علاقے تھر کی ایمرجنسی میں بھی خدمت خلق ، ٹھٹھہ کے سیلاب ، 2010 کے سیلاب میں بھی خدمت ، پسنی ، گوادر، شادی کور میں سب سے متحرک کردار خدمت خلق فاؤنڈیشن کا رہا۔ گلگت کشمیر، سکھر ، بلوچستان کے علاقے بام میں سمندری سیلاب ، اسکردو میں امدادی سامان کی تقسیم بھی کی گئی ۔ میدیکل خدمات میں ٹرین حادثوں ، پنوں عاقل سانگی ریلوے حادثے ، سہون بم دھماکے، عبداللہ شاہ غازی بم دھماکے ، بالا کوٹ ، کاغان ، و متصل علاقوں میں بھی امداد پہنچائی گئی ۔ ملک کے ہر ڈیزاسسٹر میں خدمت خلق پیش پیش رہی۔
ملک سے باہر ایران میں بھی امداد دی گئی یہ ادارہ خدمات کے حوالے سے منفرد حیثیت کا حامل رہا ہے ۔ لیکن حیرت انگیز امر ہے کہ اس ادارے کو ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن اور پابندیوں میں مکمل نشانہ بنایا گیا۔ اس سے انکار نہیں کہ کچھ افراد اس ادارے میں غلط ہوسکتے ہیں لیکن 22اگست 2016کے بعد اس ادارے کو مکمل پابندیوں کا سامنا ہوا اور جو اب تک جاری ہے۔
دوسری جانب سندھ حکومت نے رفاہی ادارے کو بھی اپنی عصبیت اور ایم کیو ایم دشمنی کا شکار کرکے خدمت خلق فاؤنڈیشن کو فلاحی کام کرنے سے روک دیا اگر کوئی ایسی بات بھی ہے جو وضاحت طلب اور خلاف قانون یا کسی فرد کی وجہ سے ہے تو اسوقت ان شکایات کا ازالہ کرکےانڈر ٹیکن لیکر اس ادارے کو کام کرنے کی اجازت ہونی چاہئے گزشتہ روز خدمت خلق فاؤنڈیشن کے کے کے ایف کے مرکزی دفتر میں منعقدہ امدادی پروگرام میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے بھی انہی خیالات کا اظہار کیا۔
خدمت خلق فاؤنڈیشن نے پابندی کے باوجود کسی بھی سال نہ امدادی پروگرام بند کیا اور نہ فلاحی پروگرام ، میڈیکل کمیٹی خدمت خلق نے آپریشن تھیٹرز اور اسپتالوں کو مشینیں اور سامان ادویات اور ہر علاقے میں میڈیکل کیمپ لگائے۔ یہ کام پورے پاکستان میں ہوا۔ جسکے بعد کے کے ایف کے صدر دفتر میں پروگرام کا انعقاد خوش آئند ہے۔
خدمت خلق کا ایک اسپتال نذیر حسین اسپتال و یونیورسٹی ، حیدر آباد میڈیکل سینٹر ، بلڈ بنک ، مٹھی اور تھرپارکر کے علاقوں میں قحط سالی اور بچوں کی بیماریوں پر ڈاکٹروں کی ٹیم ادویات اور امداد، وینٹی لیٹرز کی مختلف جگہوں پر فراہمی، ایکوبیٹرز کی فراہمی، اربوں کھربوں کی امداد، جس میں ہر طرح کی ضروریات کی اشیاء، منرل واٹر، گھریلو سامان ، خیمے ، ادویات، ریسکیو کا سامان ، گھریلو اشیاء، خیمے ، ریسکیو کا سامان ، گھریلو سامان ، برتن ، اجناس، ری ہیبیلیٹیشن سے متعلق اشیاء، ٹھیلے ، بیڈ۔ کمبل، چادر، چارپائیاں ، موم بتیاں ،گھی، چینی، چائے کی پتی، ایک مہینے کا مکمل راشن، موبائل واش رومز،ضروریات زندگی سے متعلق اشیاء، سالانہ پروگراموں میں ٹھیلے، رکشے، وہیل چیئرز، ٹرائی سائیکل، سلائی مشین، کاروبارکے لئے کیش، امدادی کیش، اسپتال میں داخل مستحق مریضوں کی امداد، غریب افراد کے لئے کفن دفن ، ایمبولینس سروس، میت گاڑی سروس، سمیت متعدد سروس کے کے ایف فراہم کرتا رہا ہے۔
یہ ادارہ خالصتا فلاحی ادارہ ہے۔ جو بلا تخصیص رنگ و نسل و زباں خدمت کر رہاُہے ۔ 25مئی کو بھی یہی روایت دہرائی گئی ۔ کنور نوید جمیل ٹرسٹی نے کہا کہ اگر گھروں سے بھی لاکر عوام کی خدمت کرنی پڑے تو کریں گے۔ یہ پہلو افسوسناک ہے کہ خدمت خلق فاؤنڈیشن کو آزادانہ خدمت کی اجازت نہیں ہے ۔ نہ وہ کھالیں ، صدقہ زکوات، فطرہ جمع کرسکتی ہے جبکہ فلاحی ادارہ کا مین سورس یہی چیزیں ہوتی ہیں ۔ پچھلے سال 19جون 2017کو خدمت خلق فاؤنڈیشن نے بہت بڑا پروگرام اپنے وسائل سے کیا جس میں خدمت کا نیا انداز اختیار کرتے ہ وئے اسلامی روح کے مطابق مستحقین سفید پوش افراد کو انکے گھر امداد پہنچانے کا انتظام کیا گیا جو اس سال بھی برقرار رکھا گیا۔
پچھلے سال کے پروگرام میں محمود شام ، امین یوسف، احمد حسن ، شہزاد چغتائی، شکیل کانگا، متعدد صحافی حضرات کے علاوہ تاجر برادری نے بھی امدای سامان کی تقسیم میں حصہ لیا اس مرتبہ بھی یہ روایت برقرار رکھتے ہوئے عمائدین شہر ، صحافی حضرات ، اراکین اسمبلی ، رابطہ کمیٹی اور تاجربرادری نے تقسیم میں حصہ بھی لیا۔ جبکہ خالد مقبول صدیقی، عامر خان ، امین الحق، کنور نوید جمیل، کیف الوری، عارف خان ایڈووکیٹ، ارشاد ظفیر، مطیع الرحمان ، عبدالقادر خانزادہ ، ارشد حسن ، شکیل، معید انور، نیر رضا، اسلم آفریدی، خالد سلطان ، محمد حسین خان، فرقان اطیب، ابوبکر صدیقی، راشد سبزواری ، کشور زہرہ سمیت دیگر ارکان شامل تھے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس ادارہ کو مکمل آزادی دی جائے تاکہ خدمت کا یہ بہترین ادارہ سیاست سے بالا تر ہوکر خدمت کا عمل جاری رکھ سکے ۔ خدمت کو جرم نہ بنایا جائے۔ اسے غیر سیاسی انداز میں چلانے اور کام کرنے کی اجازت دی جائے اگر تحفظات ہیں تو بہادر آباد سے رابطہ کرکے کنوینر خالد مقبول صدیقی ، عامر خان ، کنور نوید اور دیگر سے تحفظات دور کرکے اس ادارے کو دوبارہ فعال اور ہر طرح سے فنڈ ریزنگ قانون کے دائرے میں کرنے کی اجازت دی جائے۔ خدمت کے ہر اچھے ادارے کی سرپرستی ہونی چاہئے۔
تعارف:
تحریر : رضوان احمد فکری لکھاری ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں، ان سے ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ Rizwanahmedfikri1@gmail.com
نوٹ: قلم کار کے ذاتی خیالات اور صارفین کے کمنٹس سے ادارے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔