سپریم کورٹ میں موبائل فون کمپنیوں کے اضافی ٹیکس کیس کی سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔
دورانِ سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ریڑھی والا، نان والا، پلمبر اور نائی موبائل ٹیکس کیوں دے؟ حکومت کیسے یہ طے کرے گی کہ کون ٹیکس ادا کرے گا کون نہیں؟ جو شخص مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتا وہ ود ہولڈنگ ٹیکس کیوں ادا کرے؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا یہ موبائل فون ٹیکس کا معاملہ 184/3 میں آتا ہے؟
اٹارنی جنرل نے انہیں جواب دیا کہ موبائل فون ٹیکس کا معاملہ مفاد عامہ کے ایشوز میں نہیں آتا۔
نجی موبائل کمپنی کےوکیل نے کہا کہ موبائل کمپنیوں نے اپنے 10 فیصد سروس چارجر ختم کر دیے ہیں، عدالت عظمٰی کے حکم پر موبائل فون پر سروس چارجر ختم کر دیے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا 10 فیصد سروس چارجز ختم کرنے پر کوئی اعتراض ہے؟ سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے گزشتہ ایک سال میں وصول کیے گئے ٹیکسز کی تفصیلات طلب کر لیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰنے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مطابق موبائل ٹیکسز کا معاملہ 184/3 میں نہیں آتا، پارلیمنٹ کا بنیادی کام کیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ ملک چلانے کے لیے رقم کی ضرورت ہوتی ہے، کیا پارلیمنٹ کا کام صرف ٹیکس اکھٹے کرنا ہے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ جن قوانین کے تحت ٹیکس جمع کیا گیا ہے ان کی تفصیل جمع کرائی جائے۔
اٹارنی جنرل نے موبائل فون ٹیکس کے خلاف عدالتی کارروائی کی مخالفت کر دی اور کہا کہ موبائل ٹیکس کا معاملہ بنیادی حقوق اور مفاد عامہ میں نہیں آتا۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ موبائل پر ٹیکس معطل ہونے سے ہمارا 80 ارب روپے کا ریونیو اکھٹا نہ ہو سکا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ٹیکس وصولی کے قوانین معطل کیے بغیر ٹیکس وصولی کیسے معطل ہو سکتی ہے؟
بشکریہ جنگ