سن 2011 یعنی 8 سال قبل جب 2 مئی کو امریکی افواج کے دستے نے خیبرپختونخواہ کے علاقے ایبٹ آباد میں کارروائی کر کے القاعدہ کے سربراہ اور دنیا کے سب سے مطلوب شخص اسامہ بن لادن اور ساتھیوں کو رات گئے مقابلے میں ہلاک کیا۔
امریکی افواج کی کارروائی کے قت زیب بابا نامی شہری اپنے گھر کے برانڈے میں سورہے تھے، نوے سال سے زیادہ عمر والے محمد زین ایبٹ آباد کے علاقے بلال ٹاؤن میں گزشتہ 6 دہائیوں سے رہائش پذیر ہیں اور زین بابا کے نام سے مشہور ہیں وہ اسامہ بن لادن کے مکان کے بہت قریب رہتے تھے اور کمپاؤنڈ میں اُن کے پڑوسی تھے، لادن اور زین بابا کے گھر کے درمیان صرف 7 فٹ کا فاصلہ تھا جس میں سڑک بھی شامل تھی۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے زین بابا نے بتایا کہ 2 مئی 2011 کی اس رات ساڑھے 12 بجے کے قریب ہیلی کاپٹر کی آوازیں سنیں۔ اس وقت آوازیں صاف تھیں کیونکہ وہ میرے گھر کی چھت کے بالکل قریب پرواز کررہے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق ہیلی کاپٹروں کی تعداد تین تھی، ایک ہیلی کوٹھی کی چھت پر رکا اور پھر اُس میں سے فوجی اترے، دوسرا میرے کھیت اور تیسرا میرے گھر کے قریب خالی پلاٹ پر اترا، جیسے ہی میرے صحن کے قریب ایک ہیلی کاپٹر آیا پھر یک دم تیزی سے درختوں کے درمیان سے گزرا اور اُس کوٹھی کی دیوار سے جاکر ٹکرایا جہاں اسامہ رہائش پذیر تھے۔
انہوں نے بتایا کہ : ’’ہیلی کاپٹر ٹکرانے کے بعد اس قدر تیز آواز آئی جیسے دھماکا ہوتا ہے، معلوم نہیں پائلٹ بچا تھا یا مر گیا تھا‘۔ زین بابا بتاتے ہیں کہ بعد میں انھوں نے سڑک پر دوڑنے کی آوازیں سنیں۔ اس دوران فوجیوں نے کوٹھی کا گیٹ کھولنا اور توڑنا چاہا مگر وہ اس میں ناکام رہے تو انھوں نے ہینڈ گرنیڈ پھینک کر گیٹ کو توڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ اندھیرے کی وجہ سے وہ نہیں دیکھ سکے کہ وہاں کیا ہو رہا تھا مگر بوٹوں کی آوازوں سے پتا چلتا تھا کہ وہ تیسری منزل پر پہنچ گئے تھے جہاں پر 2 کمرے تھے۔ ان کمروں میں خواتین اور بچے ہوتے تھے۔ ’’میں نے عورتوں اور بچوں کے چیخنے کی آوازیں سنیں مگر چند ہی لمحوں کے بعد وہ آوازیں آہستہ آہستہ بند ہوگئی تھیں‘‘۔
زین بابا بتاتے ہیں کہ اس کے بعد دوبارہ بوٹوں کی آوازیں شروع ہو گئیں۔ فوجیوں نے ہیلی کاپٹر میں بیٹھنا شروع کردیا تھا۔ مجھے کسی بندوق کی گولی کی کوئی آواز سنائی نہیں دی تھی۔ ہاں جب وہ جارہے تھے تو ہیلی کاپٹر تباہ کرنے کا زوردار دھماکہ ضرور ہوا تھا۔ وہ ابھی اڑے ہی ہوں گے کہ پولیس موقع پر پہنچ گئی جس نے علاقے کے چاروں طرف کھڑے لوگوں کو ہٹانا شروع کردیا تھا۔ اس کے بعد فوج بھی پہنچ گئی جس نے لاشوں کو نکالا۔ عورتوں اور بچوں کو گاڑیوں میں بٹھایا اور پھر وہاں چوکیاں قائم کر کے ایک سال تک موجود رہے۔
زین بابا کے مطابق علاقے میں سارے مکانات ان کے سامنے تعمیر ہوئے اور کمپاؤنڈ بھی ان کے سامنے ہی تعمیر ہوا۔ زین بابا کا دعویٰ ہے کہ اِس مکان میں دو چچا زاد بھائی اپنے خاندان کے ہمراہ رہائش پذیر تھے اور حملے میں وہ ہلاک ہوئے تھے۔