سپریم کورٹ:‌ ’’جب شہریوں گھر ٹوٹے تو فوجیوں کے ہال کیوں‌ نہیں‌ گرائے گئے؟‘‘

کراچی سپریم کورٹ رجسٹری میں تجاوزات کے خلاف کیس کی سماعت، ملٹری لینڈ پر شادی ہالز اور تجارتی سرگرمیوں کا معاملہ، سپریم کورٹ نے سیکر یٹری دفاع کی رپورٹ مسترد کردی، ملٹری لینڈ اور کنتونمٹس سے تمام تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کا حکم، شادی ہالز اور تجارتی مراکز گرانے کے حکم پر فوری عمل درآمد کا حکم، کالا پل پر گلوبل مارکی اور واٹر بورڈ آفیسرز کلب کے انہدام کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں بھی مسترد کردیں، ناقص رپورٹ پر سپریم کورٹ کی سیکریٹری دفاع کی سرزنش، کراچی میں فوجی زمینوں پر شادی ہالز سے متعلق سیکریٹری دفاع کی رپورٹ مسترد

کراچی: سپریم کورٹ نے فوجی زمینوں پر شادی ہالز سے متعلق سیکریٹری دفاع کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے وزیر بلدیات سندھ سعید غنی کو بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تجاوزات کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی تو اٹارنی جنرل، سیکریٹری دفاع، میئر کراچی، ایڈووکیٹ جنرل، ایم ڈی واٹر بورڈ، کنٹونمنٹ کے افسران اور دیگر اعلیٰ حکام عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آرمی کا شادی ہال چلانے کا کیا جواز بنتا ہے، فوجیوں کو کیا مسئلہ ہے کہ وہ شادی ہال بنائیں، فوج کو کیا اختیار ہے کہ سرکاری زمین کسی فرد کے حوالے کردے۔

انسداد تجاوزات آپریشن سے متعلق بیان دینے پر سپریم کورٹ نے وزیر بلدیات سعید غنی اور میئر کراچی وسیم اختر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر بلدیات کہتے ہیں میں عدالتی حکم پر عمل نہیں کروں گا، میئر کراچی بھی بولتے پھر رہے ہیں ہم عمارتیں نہیں گرائیں گے، کیا یہ لوگ عدالت سے جنگ کرنا چاہتے ہیں، پورے شہر میں لینڈ مافیا منہ چڑا رہا ہے اور یہ ایسی باتیں کرتے پھر رہے ہیں۔

دوران سماعت سینئر وکیل رشید اے رضوی اور بینچ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ رشید اے رضوی نے فاضل جج سے کہا کہ آپ کسی کو نہیں سن رہے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کو ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کا اختیار نہیں جبکہ ڈی ایچ اے غلط بنا ہے توغلط ہے۔

سپریم کورٹ نے فوجی زمینوں پر شادی ہالز اور تجارتی سرگرمیوں سے متعلق سیکریٹری دفاع کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے ملٹری لینڈ اور کنٹونمنٹس سے تمام تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے اور شادی ہالز ا تجارتی مراکز گرانے کے حکم پر فوری عمل درآمد کا حکم دیا۔