افطار پارٹی ویسے تو میں نے اج تک کسی بھی قسم کی تقریبات پر کبھی نہیں لکھا لیکن 24 مٸ بروز جمعہ ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے سیاسی جماعتوں، تاجروں اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کو داعوت افطار دی گٸ اچھا اہتمام تھا اور افراد بھی اچھے خاصے تھے دو سے ڈھاui ہزار افراد کی موجودگی اور روزے کا احترام بہت اچھا لگا ایم کیو ایم کے کنونٸیر ڈاکٹر خالد مقبول سٸنیر ڈپٹی کنونٸیر عامر خان ڈپٹی کنونٸیر کنور نوید جمیل وسیم اختر اور نسرین جلیل جبکہ رابطہ کمیٹی کے فیصل سبزواری امین الحق خواجہ اظہار کشور ذہرا اور دیگر حضرات جنکا تعلق رابطہ کمیٹی سے ہی تھا میزبانی کے فراٸض انجام دے رہے تھے۔
تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی موجودگی تھی مذہبی علما بھی ہاں ہاں شعیہ سنی علما بھی موجود تھے لیکن جو بات سب سے زیادہ خوشگوار محسوس ہوئی یا محسوس کی گئی وہ مہاجر قومی موومنٹ کے چیرمین آفاق احمد کا داعوت افطار میں انا پھر پی ایس پی کے رہنماوں کا انا اسکے ساتھ ایم آئی ٹی کے سربراہ ڈاکٹر سلیم حیدر کی آمد نے ان شکست خوردہ لوگوں کو ایک بار پھر ناکام کردیا جو ایم کیو ایم کو ایک چھوٹی پارٹی سمجھ رہے تھے۔
میں شیخ رشید کا ذکر نہیں کر رہا اسد عمر سو بار آٸیں مسئلہ نہیں فردوس شمیم نقوی کے ساتھ اور ایم پی ایز بھی آٸیں کوئی بات نہیں صبغت اللہ راشدی ارباب غلام رحیم نند کمار یا نصرت سحر عباسی سر انکھوں پہ راشد ربانی وقار مہدی اور شہلا رضا ہمارے بھائی بہن اور کتنے نام لکھوں ایم کیو ایم کا داعوت افطار و ڈنر نے وہ کمال کیا جو اب میں آپ کے گوش گزار کروں گا۔
اج شام ایک داعوت افطار اور بھی تھی وہ تھی شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کی جس میں وزیراعظم عمران خان شریک ہوئے ہوجاتا ہے ایسا بھی ایک دن میں دو افطار کی داعوت عام بات ہے مگر افطار سے کچھ دیر پہلے گورنر ہاوس سندھ میں وزیراعظم عمران خان کی ایک ملاقات کی خبر چلی جسمیں جی ڈی اے اور تحریک انصاف سندھ موجود تھی عمران خان سے اس ملاقات میں ایم کیو ایم کا کوئی وجود نہیں تھا لیکن جو بیانیہ چلا وہ یہ تھا کہ عمران خان سے ملاقات کرنے والوں میں ایم کیو ایم بھی شامل تھی اور عمران خان نے ”دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ سندھ میں کوئی دوسرا صوبہ نہیں بنے گا نیا بلدیاتی سیٹ اپ کافی ہوگا “
مطلب پھر جھوٹ اور جھوٹ پہ کھڑی عمارت کتنی پاٸیدار ہوتی ہے کیا یہ بھی بتایا جائے، افطار میں مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد پی ایس پی کے رہنماوں وسیم افتاب سلیم تاجک اور ایم آئی ٹی کے سربراہ کا آنا یہ شہری سندھ جنوبی سندھ یا سندھ میں ایک اور صوبہ بننے کہ لیے ایک خاموش قدم ہے۔
مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے جب ملک کا وزیراعظم صوبائی معاملات پر بات کرے اور جب بات کرے تو وہ بھی یک طرفہ سندھ کے شہری علاقوں میں جب ریاست آپریشن کرتی ہے تو اسے ایم کیو ایم ہی نظر اتی ہے۔
آپریشن 1992 ہو یا 2012 پوری کی پوری تنظیم کو اپ سمیٹ دیتے ہو 1992 میں آپریشن میں سینکڑوں مہاجر نوجوان ذندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے لوگ قطار در قطار ووٹ ایم کیو ایم کو دیتے رہے میں تو ایم کیو ایم کا مخالف تھا لیکن میں نے اپنی انکھوں سے اپنی شکست کو دیکھا ہاں کچھ جوشیلے جوان بھی تھے جذباتی قسم کے اور وہ اپنے انجام کو پہنچے کچھ کی لاشیں اسلام اباد کی مرگلا پہاڑیوں پر پھینک دی گٸیں بھائی وہ دہشت گرد تھے تو عدالت سے سزا دلواتے صولت مرزہ کو ہھانسی دی نہ عدالت کہ کہنے پہ جو غلط کرے اسے سزا لازمی ملنی چاہیے مگر ایم کیو ایم کے ساتھ ایسا نہیں طالبان کے لیے عدالتیں تیار ہیں لیکن ایم کیو ایم کے لیے کوئی قانون نہیں اس 2012 والے اپریشن میں تو قیادت ہی بدلنی پڑگئی پر فاٸدہ کیسے ملا چار قومی اسمبلی کی سیٹیں بس اور وزیراعظم بھی اس قوم کے خلاف اس قوم کی اکلوتی نماٸندہ جماعت کے خلاف آپریشن تو بلوچستان میں بھی ہورہا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کے ان قباٸیلی بلوچوں کو کسطرح معاف کیا جا رہا ہے اپریشن تو کے پی کے میں بھی ہوا اور پی ٹی ایم کس انداز سے ریاست اداروں کے خلاف کام کر رہی ہے اور اپ خاموش رینجرز لاہور میں بھی گٸ مگر اقوام متحدہ کو اپ نے اپنے عزم سے منہ توڑ جواب دیا حافظ سعید اور مسعود اظہر اپکی حفاظت میں ہیں زرداری کرپٹ ترین ادمی مگر ضمانت اسکے لیے ہر وقت حاضر پھر ہمیں ہمارا قصور ہی بتا دیں کہ ہم بلا وجہ ملکی استحکام کو سامنے کیوں رکھیں ہم ملک بھر میں نۓ انتظامی یونٹس کا مطالبہ کیوں کریں نیاصوبہ ہم کیوں مانگیں جب ریاست اور حکومت ہمیں اپنا سمجھنے کو تیار ہی نہیں وزیراعظم اس دکھی قوم کے سر پر اپنا ہاتھ رکھنے کو تیار نہیں لاپتہ افراد کے گھر والوں کا دکھ ہمارے لیے دفاتر کی بندش ہمارے لیے کے کے ایف پر پابندی سندھ حکومت کا تعصب انتہا کا ہو تو ہمیں بتاٸیں تو کہ ہم سیاست کریں یا نہ کریں یہ وطن تو ہمارا ہے اس وطن کی محافظ پاک فوج ہماری ہے اور مجھے یقین ہے کے ریاست کا رویہ بدلے گا حکومت ہماری بھی ہوگی اور یہ بات جھوٹ نہیں سچ ہے کہ سندھ میں ہی نہیں بلکہ ملک کے ہر صوبے میں شہروں کو صوبے کا درجہ دیا جائے گا۔