ام رباب، سندھ کے بااثر وڈیروں سے لڑنے والی نہتی لڑکی

یہ سندھ کی بیٹی ام رباب چانڈیو ہے. یہ بچی اپنے دادا باپ اور چچا کے قاتلوں کے خلاف تن تنہا صف آراء ہے. احتجاجاً عدالت میں اس گرمی کے باوجود ننگے پاؤں پیش ہوئی، اس بہادر بچی کے باپ دادا اور چچا کو سندھ اسمبلی کے دو ممبران بھائیوں (جو کہ اپنے علاقے کے وڈیرے ہیں) سردار چانڈیو اور برہان چانڈیو نے قتل کیا۔

اس اکیس سالہ بچی جو کہ خود قانون کی طالبہ ہے نے ان وڈیروں جاگیرداروں اور سرداروں کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا جو اپنی نجی عدالتیں جرگے اور جیل چلاتے ہیں،ام رباب کیس اس وقت میڈیا میں آیا جب رباب نے چیف جسٹس آف پاکستان کی گاڑی بیچ سڑک پر روک کر اپنے دادا باپ اور چچا کے قاتلوں کے کٹہرے میں لانے کے لئے احتجاج کیا۔

اب آپکو سمجھ آنا چاہیے کہ یہ وڈیرے، جاگیردار کیوں تعلیم اور تعلیم یافتہ بچوں کی پذیرائی نہیں کرتے. اگر یہ ہی رباب تعلیم یافتہ نہ ہوتی تو ان ہی وڈیروں کی زمینوں پر کام کررہی ہوتی یا اپنے باپ دادا کی زمین بھی جرگہ کے فیصلے میں ان وڈیروں کے نام کر چکی ہوتی۔

یہ کٹھن سفر ام رباب نے بلند حوصلے، اٹل ارادے اور بے باکی کے ساتھ طے کیا۔ عدالتوں کی شنوائیاں، مجرموں کا دباو، اور مختلف طریقوں سے کیس پہ اثر اندازی، لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی۔ وہ قاتلوں کو سزا دلوانے اور سرداری نطام کو پاش پاش کرنے کہ لئے جد و جہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سندھ کا با شعور اور نوجوان طبقہ جاگیردارانہ سماج کے خاتمے، قاتلوں کو سزا دلوانے کہ لئے ام رباب کے ساتھ کھڑا ہونا، اور ان کی جد و جہد میں قدم بہ قدم ساتھ دینا چاہیے اور جس طرح سندھ کے بپھرے ہوئےشہری وڈیروں کو ریاست نے لگام ڈالی اسی طرح دیہاتی وڈیروں کو بھی لگام ڈال کر سندھ کو اس کی حقیقی اور فطری پہچان یعنی امن محبت مہمان نوازی اور بھائی چارہ کی طرف لے جانے کا سفر شروع کیا جائے.

پولیس جب تک خود قانون کی پاسداری نہیں کرے گی تب تک انصاف ناگزیر ہوگا معاشرے میں تبدیلی نہیں آ سکے گی۔ ایک طرف ام رباب کو بیسوں پولیس دے کر تحفظ کا ڈھونگ رچایا جا رھا دوسری طرف قتل اور اقدام قتل کے مجرموں کی پشت پناہی کی جا رہی ہےجس کی زندہ مثال آج تب دیکھا گیا جب روپوش جوابدار علی دوست سیشن کورٹ دادو میں دیکھا گیا جس کی اطلاع پولیس کو دی گئی کہ کورٹ سے باھر نکلتے ھوئے مجرم کو آسانی سے گرفتار کر سکتے ھیں لیکن پولیس کے سامنے با اثر لوگوں نے اپنی گاڑی میں بٹھا کر روپوش جواب دار کو فرار کروادیا۔

جناب اعلی جب ناانصافی قانون بن جاٸے تو بغاوت فرض ھو جاتی ہے۔ اگر آپ سے جوابدار گرفتار نہیں ھو رھے تو آپ کو کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔

کرسی ہے، تمھارا یہ جنازه تو نہیں ہے۔۔۔!!

کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے….!!

آئی جی سندہ آپ جوابدہ ھیں کہ قانون کی حکمرانی ھے یا وڈیروں کا قانون ھے ؟ آئی جی سندہ نے دادو پولیس کے اس قدم کا نوٹس نہ لیا تو احتجاج کا دائرہ بڑھایا جائے گا۔