آنکھوں‌ دیکھی آپریشن کہانی ۔۔۔۔۔ عدیل رضا عابدی

80 کی دہائی میں پیدا ہونے والے جب 90 کی دہائی میں اپنا بچپن گزار رہے تھے تو انہوں نے بڑا عجیب اور مزیدار بچپن گزار، شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ ایسا بچپن آج کے بچے کسی صورت پا ہی نہیں سکتے ، عجیب لوگ تھے ، محبت سے لبریز، پڑوسیوں کا خیال رکھنے والے، والد کے سارے دوست چاچا، سگے چاچا کے سارے دوست چاچا، والدہ کی سہیلیاں خالائیں اور ان کے بچے بہن بھائی ہوا کرتے تھے۔

سن 1993 ، مارچ کی ایک چمکدار دوپہر 4، 5 سال کا بچہ موٹر سائیکل سے اترتا ہے، موٹر سائیکل سوار اسے ” چیز ” کی تھیلی پکڑاتا ہے۔ تھیلی میں ٹا فیاں اور پاپڑ کے پیکٹ تھے، بچہ نہایت ہی انہماک کے ساتھ اپنی ٹوفیاں گننے لگتا ہے۔ دروازے پر کھڑی بچے کی ماں پریشانی کے عالم میں بچے کو دیکھ رہی ہے۔ آخر پریشان کیوں نہ ہو، گھنٹے بھر سے علاقے میں فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے، بچے کے باپ اور بھائی بھی گھر پہ موجود نہیں ہیں، دونوں چچا کئی دنوں سے گھر نہیں لوٹے، دادا بیچارے دو پٹی کی چپل پاوں میں ڈالے علی گڑھ کٹ کا پاجامہ پہنے بچے کو ڈھونڈ رہے ہیں اور ادھر بچہ ہے کہ مزے سے اپنے چچا کے دوست کے ساتھ ” موٹر سائیکل ” کی سواری کررہا ہے۔

عدی بادشاہ ! عدی بادشاہ !

بچے کی ماں نے آواز دی،

آیا مما !

یہ کہتے ہوئے عدی نے ماں کی طرف دوڑ لگائی، دوسری جانب موٹر سائیکل سوار عمران قریشی نامی نوجوان بھی السلام و علیکم بھابھی کہہ کر سلام کا جواب لئے آگے بڑھ گیا!

کہاں گئے تھے ؟ ماں نے پوچھا ۔ عمران چاچا آگئے تھے ان کے ساتھ سواری کھا رہا تھا اسکوٹر کی! عدی نے نہایت اطمینان سے جواب دیا !

پتا ہے میں کتنا پریشان تھی، بھلا ایسے بھی کوئی اسکول سے آتے ہی بیگ رکھ کر بھاگتا ہے ؟ آنے دو اپنے باپ کو ، بتاتی ہوں ، ابھی دادا آئیں گے تو پہلے وہ پوچھیں گے، کیوں گئے تھے عمران کے ساتھ ۔ ۔ ۔ ماں بغیر کسی فل اسٹاپ کے بولتی جارہی تھی ۔

اسکوٹر چلانی سیکھنی ہے اس لئے ، عدی نے ٹافی منہ میں ڈالتے ہوئے جواب دیا ۔

کیا؟؟؟ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے جو اسکوٹر چلانے کا شوق ہوا چلا ہے ؟ ماں بولی ۔

بس چاچا نے کہا تھا کہ بیٹا میرا جیسا بننا ہے بڑے ہو کر اس لئے ابھی سے تیاری کررہا ہوں ۔ بچے نے اپنی دھن میں جواب دیا ۔

تم اور تمہارے چاچا، آنے دو پاپا کو آج، خود تو سرکاری نوکریاں چھوڑ کر بیٹھے ہیں، کئی کئی دن غائب رہتے ہیں، گھر کا ہوش نہیں، اوپر سے تنظیم جوائن کرلی ہے ۔ سامنے والے عرفان سے الگ جھگڑا مول لے لیا ہے، پتا ہے وہ آفاق کے ساتھ حقیقی میں ہوگیا ہے۔ پرسوں میں نے اسے کالے شفیق کے ساتھ جاتے دیکھا تھا میری طرف ہی دیکھ رہا تھا شاید یہی بتا رہا ہو کہ وہ دیکھو اسد اور رضا کی بھابھی ہے وہ ، میرے بچے حالات بہت خراب ہیں کیوں نہیں سنتے تم میری بات ؟؟

مما جب میں بڑا ہوکر چاچا جیسا بنوں گا تو کالے شفیق اور عرفان کو ماردوں گا ، آج عمران چاچا بتا رہے تھے کہ عارف اور انو چاچا کو انہی لوگوں نے ہی مارا ہے ! کیا یہ صحیح ہے ؟ عدی نے معصومیت سے ماں سے سوال کیا ۔

میں نہیں جانتی ، اور خبردار جو آئندہ یہ کہا کہ میں کسی کو ماروں گا ۔ بس چلو ہاتھ منہ دھو لو میں نے آلو کی چاٹ بنائی ہے تمہارے لئے ۔( یہ کہتے ہوئے ماں نے اپنے سامنے جوان ہوئے محلے کے مقتول بچوں کے غم میں نکلے آنسو ڈوپٹے میں جذب کرنے کی ناکام کوشش کی )۔

پھر رو کیوں رہی ہیں ؟ مما کیا کالا شفیق بہت خطرناک ہے ؟ وہ سب کو مار دیتا ہے ؟

نہیں بیٹا زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور تم بہت چھوٹے ہو ایسے سوال مت کرو اب جاو ہاتھ منہ دھولو ۔ ماں نے عدی کو سمجھانے کی ناکام کوشش کی اور خود کچن میں چلی گئی۔

عدی ہاتھ دھو منہ دھو کر آیا تو دادا بھی گھر میں موجود تھے۔

کہاں تھا میرا شیرو بیٹا ؟ دادا نے پوچھا ۔

عمران چاچا کے ساتھ تھا ابو ( عدی اپنے دادا کو ابو پکارتا تھا )

کیا اسد اور رضا کا کچھ بتایا انہوں نے ؟ دادا نے چپکے سے عدی کے کان میں کہا۔

دادا وہ کہہ رہے تھے کہ ابو کو کہنا اسد چاچا کے گولی لگی ہے اور وہ ڈیڑھ نمبر والی شبانہ خالہ کے گھر پہ ہیں ۔ انہوں نے منع کیا ہے کہ مما اور پھپھو کو مت بتانا !

اوہ میرے خدایا میرے بچوں کی حفاظت فرما ( دادا کے منہ سے بے ساختہ نکلا )

* * * * * ** * * * * * * * * * * * * * * *

شام میں عدی ٹیوشن پڑھ کر گھر واپس آیا تو عمران کی والدہ اور بہن کو اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا دیکھا۔

دونوں بہت خوشگوار موڈ میں تھیں ۔

پتا ہے تنویر میں عمران کی بات پکی کرنے جا رہی ہوں ۔ عمران کی والدہ نے عدی کی ماں سے کہا۔

واہ خالہ بہت بہت مبارک ہو۔ کیا ثناء سے ہی پکی کر رہی ہیں ؟

ہاں اسی سے ، میرے عمران کو ایک وہی ہے جو سیدھا کردے گی، مگر کہتا ہے کہ امی جب آپ اور تنویر بھابھی سے کچھ نہ ہوا تو کسی میں کوئی ہمت نہیں ، آپ شادی کردیں مگر بتادیں میں الطاف بھائی کو کسی صورت نہیں چھوڑوں گا ۔

***** عدی جو پاس کھیلتے میں یہ سب سن رہا ہے ایک دم رک جاتا ہے۔ ۔ ۔

خالہ عمران چاچا بتا رہے تھے کہ عارف اور انو چاچا کو سامنے والے عرفان نے قتل کروایا ہے ان کی مخبری کرکے ؟ یہ مخبری کیسے کرتے ہیں ؟ عدی نے پھر حسب عادت سوال داغ دیا ۔

تم اپنا کھیلو ، ذیادہ دادا ابا مت بنو، چلو تنویر اندر چل کر بیٹھتے ہیں۔

( عدی کی ماں اور عمران کی والدہ اور بہن تینوں خواتین اندر چلی چاتی ہیں)۔

عدی بھی تجسس میں کمرے میں جا پہنچا۔

بس تنویر دعا کرو میرے عمران کی شادی ساتھ خیریت کے ہوجائے ، اکبر بھی ہر وقت اپنے بھائی کے لئے فکر مند رہتا ہے۔ علی شیر بھی بس ہر پل اسی کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں۔ عدی نے عمران کی والدہ کو کہتے سنا ۔

بس خالہ ، یہ بچے ہماری گودوں کے کھلائے ہوئے ہیں، ہمارے سامنے جوان ہوئے سب کچھ اچھا بھلا تھا خدا بیڑا غرق کرے اس پولیس اور حقیقی کا جس کی وجہ سے آج سب در بدر ہیں۔ اسد اور رضا کو بھی گھر آئے آج 20 دن ہوگئے ہیں دیور ہیں مگر بیٹوں کی طرح پال کر جوان کیا ہے، عمران کو بھی آج میں نے ایک مہنے بعد دیکھا ، بس سلام کیا اور ہوا کی طرح غائب ! اللہ ہمارے بچوں کی حفاظت کرے۔

********

مما ، عمران چاچا کہہ رہے تھے کہ انہوں نے عتیق چاچا کے ساتھ مل کر ڈاکٹر بخاری کی گلی میں گھر لے لیا ہے۔ وہ اب وہیں رہتے ہیں ۔

ہائے خالہ کیا دن آگئے ہیں ، ہمارے بچے ہم سے چار چار گلیاں دور رہتے ہیں اور کئی کئی ہفتے ہم ان کی شکلیں نہیں دیکھ پاتے۔ عدی کی ماں تنویر نے اس کی بات پر بے چارگی کا اظہار کیا۔

*****

بھابھی ! عمران بھائی آج گھر پہ آئے تھے تو امی کو کہہ گئے ہیں کہ رات کو اچار گوشت بنائیں وہ لینے آئینگے ۔ چار لوگوں کا کھانا بنانا ہے ۔ اس بار عمران کی بہن فرحین نے بھی لقمہ دیا ۔

****

اچار گوشت میں بھی کھاونگا خالہ ، عدی نے چٹخارے لیتے ہوئے کہا ۔

ہاں کیوں نے میرے بچہ ، خالہ نے بھی عدی کو خود سے لپٹا لیا ۔

****

رات کےتقریبا 9 بجے ہیں ، عمران کی والدہ عدی کے گھر کے دروازے پر ہاتھ میں سالن کا ڈونگا لئے کھڑی ہیں،

خالہ آگئیں ، عدی نے چیختے ہوئے ماں کو بتایا اور بڑے بھائی کے کاندھے سے جھول گیا جو بیٹھا اپنے اسکول کے کام میں مشغول تھا ۔

***

تنویر یہ عدی کے لئے لائی ہوں ۔ عمران کی والدہ نے نہایت افسردگی کے ساتھ سالن کا ڈونگا آگے بڑھاتے ہوئے کہا ۔

کیا ہوا خالہ کیوں پریشان ہیں ، کیا ہوا ہے ؟

عمران ابھی تک نہیں آیا ، کھانا بھی ٹھنڈا ہوئے جارہا ہے ، 8 بجے آنے کا کہا تھا ۔ خالہ نے تنویر کے استفسار پر جواب دیا۔

سنو محمد حسن یا اسرار بھائی سے پتا تو کراو ، انہیں وہاں بھیج دو بیٹا، جہاں رہنے کا عمران نے عدی کو بتایا تھا ۔ خالہ نے تنویر سے ملتجانہ لہجے میں کہا ۔

ٹھیک ہے میں ان سے کہہ دیتی ہوں ۔ یہ کہہ کر تنویر نے اپنے کمرے کا رخ کیا اور اپنے شوہر کو ساری بات کہہ ڈالی۔

خالہ آپ سکون سے گھر جائیں ، وہ ابھی دیکھ کر بتاتے ہیں کیا پتا عمران کہیں اور ہو ، مگر وہ کہہ رہے تھے کہ شام سے چوڑی گلی اور ڈاکٹر بخاری والی گلی کا پولیس نے محاصرا کیا ہوا ہے ، خالہ دعا کریں عمران وہاں موجود نہ ہو بس ! تنویر کے لہجے سے فکر عیاں تھی۔

ہائے اللہ میرے عمران کی حفاظت فرما ۔ عمران کی والدہ نے یہ کہتے ہوئے گھر کی راہ لی۔

* * * * *

کئی گھنٹے گزرنے کے بعد تنویر کے شوہر محمد حسن گھر آئے، عمران کے بھائی اکبر کو بلا بھیجا ۔ باہر برآمدے میں پڑے تخت پر بیٹھ کر اس کا انتظار کررہے ہیں، اکبر آیا تو اسے ایک کونے میں لے جاتے ہیں، کچھ بتاتے ہیں، اور پھر دونوں ہی تیزی کے ساتھ باہر نکل جاتے ہیں۔

عدی یہ منظر دیکھتے میں اپنی ماں کی آواز پر چونکتا ہے۔ صبح اسکول نہیں جانا؟ جاو چلو سوجاو اب ۔ تنویر کو سر پر کھڑا دیکھ کر عدی نے بھی بستر کی راہ لی۔

سویرے آنکھ کھلتی ہے تو ماں کو گھر پر نہ پا کر عدی باہر نکلتا ہے۔ گلی کا منظر نامہ ہی بدلا ہوا ہے۔ چیخ و پکار کی صدائیں ہیں، محلے کی خواتین بین کررہی ہیں۔ پوری گلی کچھا کچھ بھری ہوئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا ہوا ہے۔ قریب میں ہی دادا کھڑے ہیں۔ عدی نے دادا سے پوچھا کیا ہوا؟

دادا نے عدی کا ہاتھ پکڑلیا اور آہستہ سے کہا : بیٹا عمران چاچا کو شہید کردیا ہے۔

کیا؟؟؟ عدی بے خود سے ہوجاتا ہے۔ دادا نے سنبھالنے کی کوشش کی۔

******

گلی میں پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ عمران کی نعش لائی جاتی ہے۔

قیامت ِ صغریٰ کا منظر ہے مگر کوئی بھی جوان شخص گلی میں نظر نہیں آتا۔ پولیس نے اس موقع پر بھی پکڑ دھکڑ کی ساری تیاری مکمل کررکھی ہے بس چند بچے، بوڑھے اور کثیر تعداد میں خواتین ہیں ۔ پولیس کے جھرمٹ میں عدی کو عرفان نظر آتا ہے جو بہت اطمینان سے ٹہل رہا ہے وہی عرفان جس کا سے عمران چاچا نے بتایا تھا۔ عدی کی نظریں اس پر جمی ہیں۔ نعش ایمبولینس سے نکالی جارہی ہے۔ عدی کسی نہ کسی طرح میت کو غسل دینے کے لئے لگائے گئے تمبو میں داخل ہوجاتا ہے۔ چند منٹوں بعد اس کی واپسی ہوتی ہے۔

دادا جو باہر ہی چبوترے پر بیٹھے ہیں ان کی گود میں سر رکھ کر بیٹھ جاتا ہے۔

ابو کیا عمران چاچا بہادر تھے ؟

ہاں بیٹا ۔ دادا نے آہستہ سے جواب دیا ۔

پھر کیا وہ لڑے نہیں ؟ اندر اکبر چاچا کہہ رہے ہیں کہ پہلے کمرے کے روشن دان سے پولیس نے آنسو گیس مار کر چاروں لوگوں کو بے ہوش کیا ، پھر دروازہ توڑ کر فائرنگ کرکے انہیں قتل کیا ہے۔ ابو عمران چاچا کی میت جلی ہوئی بھی ہے۔ اکبر چاچا کہہ رہے تھے کہ پولیس نے سگریٹ اور استری لگائی ہے ، دھوپ میں بجری پر پڑی تھی ننگی میت ، 6 ہزار روپے لئے ہیں پولیس نے دینے کے لئے ، کیا میت لینے کے پیسے بھی ہوتے ہیں، ابو میں نے عمران چاچا کے سینے میں سوراخ بھی دیکھے ہیں ۔ کیا ڈرل مشین سے انسان میں بھی سوراخ ہوجاتے ہیں ؟؟؟؟

عدی اپنی دھن میں یہ سب کچھ کہتا جارہا ہے تھا ، دادا کے پاس اس کی کسی بات کا جواب نہ تھا سوائے اس کا سر سہلانے اور اپنی بوڑھی آنکھوں سے آنسو بہانے کے!

********** *

عمران قریشی کورنگی ایم کیو ایم کے یونٹ 79 کا کارکن تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں: