بیجنگ / لاہور: غیر ملکی خبررساں ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 600 سے زائد پاکستانیوں کو دلہن بنا کر چین فروخت کیا گیا، چین کے حکام نے تحقیقاتی رپورٹ کی تردید بھی کی۔
اے پی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 629 لڑکیوں اور خواتین کا تعلق پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہیں جن کے نام بھی موجود ہیں، مذکورہ خواتین کو دلہن بنا کر چین فروخت کیا گیا، تمام لڑکیوں اور خواتین کو چین میں موجود انسانی اسمگلنگ کے گروہ نے خریدا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ چین میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورک بہت مضبوط اور مستحکم ہے جو مختلف ممالک سے لڑکیوں کو بلا کر انہیں جنسی کاموں کے لیے استعمال کرتا ہے۔ رپورٹ میں شائع کےی گئے اعداد و شمار 2018 کے ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ جو 2018 کے بعد لڑکیوں کی اسمگلنگ کا کام بہت تیزی سے ساتھ بڑھا اور جب دونوں حکومتوں کو معلوم ہوا تب بھی انسانی اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورک باز نہ آیا اور دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
رپورٹ میں فیصل آباد کی عدالت سے جاری ہونے والے فیصلے کا حوالہ بھی دیا گیا جبکہ اے پی کے نمائندے نے ایف آئی اے کے افسر سلیم اقبال کی بات چیت کو بھی موضوع بنایا۔ ’جب ہم نے اس معاملے پر بات کی تو اعلیٰ سطح پر بات کی شنوائی ضرور ہوئی مگر کسی نے اقدامات نہیں کیے‘۔ رپورٹ کے مطابق وزارتِ داخلہ کے حکام نے اس حوالے سے بات کرنے سے صاف انکار کردیا۔
دوسری جانب متاثرہ خاندان کا دعویٰ ہے کہ کیس کی تحقیقات بہت سست روی کا شکار ہیں اور پاکستانی میڈیا میں اس طرح کی خبریں جان بوجھ کر نہیں دی جاتیں۔ چینی وزیر خارجہ نے اعداد و شمار اور انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے کہا کہ ’انہیں اس معاملے کا کوئی علم نہیں‘۔
اے پی بیجینگ بیورو کے مطابق چین اور پاکستان کے اہل خانہ دونوں فیملیز کی خوشیوں کی وجہ سے کوئی اقدامات نہیں کرتیں، کیونکہ باہمی رضامندی کے بعد ہی معاملات طے پاتے ہیں۔