کراچی: گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا ہے کہ تعمیراتی شعبے کے مسائل کا حل نئی قانون سازی میں ہے، آباد کا نمائندہ گورنر کے عہدے پر فائز ہے، آباد قانون سازی کروائے تاکہ سندھ اسمبلی سے اسکی منظوری کرائی جاسکے۔
یہ بات انہوں نے بدھ کو ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز میں خطاب کے دوران کہی۔ گورنر سندھ نے کہا کہ سرکاری اداروں کی غفلت سے بلڈرز، ڈیولپرزاور سرمایہ کاروں کو مالی نقصان نہیں ہونا چاہیے، قبضہ مافیا کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
کامران ٹیسوری نے کہا کہ شہر بھر میں بزنس کمیونٹی،ٹریڈرز، بلڈرز اور ڈیولپرز کو ان گنت مسائل کا سامنا ہے، شہر بھر میں عمارتیں سپریم کورٹ کے ایک حکم او ر ایس بی سی اے کے خط پر مسمار ہوجاتی ہیں۔ نسلا ٹاور جیسے سانحہ سے بچنے کے لیے نئی قان سازی ضروری ہے، میں یہاں گورنر کی حیثیت سے نہیں آباد کے ممبر کے طور پر آباد ہاؤس آیا ہوں۔
انھوں نے کہا کہ آباد تعمیراتی این او سی کے لیے مضبوط قانون سازی کرے سندھ اسمبلی سے منظور کرائیں گے۔ایس بی سی اے بحریہ ٹاؤن کو 15دن میں این او سی دیتا ہے تو شہر بھر میں بھی 15 دن میں این اوسی دینا اس کی ذمے داری ہے۔ ایس بی سی اے کے قوانین میں نظرثانی کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایس بی سی اے کی ٹیم آباد کے نقشے پاس کرکے این او سی فراہم کررہی ہے، اب تک آباد کے 270 کیسز کی منظوری ہوچکی ہے۔گورنرسندھ نے کہا کہ نسلا ٹاور کے معاملے پر میں بھی آباد کے وفد میں شامل تھا، آباد لوگوں کو گھروں میں بساتے ہیں یہ بھی ایک عبادت ہے، بلڈرز کو چاہیے کہ تعمیراتی منصوبے کو اپنا گھر سمجھ کر تعمیر کریں۔
گورنر سندھ نے ایک بار پھر قبضہ مافیا کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ قبضہ مافیا بوریا بستر باندھ کو دبئی یا ترکی فرار ہوجائے، انھوں نے کہا کہ میرا تعلق ایم کیو ایم سے ہے جو رات کو جاگتی ہے، آدھی رات کو بھی قبضہ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے خود پہنچوں گا۔
اس موقع پر آباد کے چیئرمین الطاف تائی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آباد نے گورنر سندھ کامران ٹیسوری سے نئی امیدیں باندھ لی ہیں۔انھوں نے کہا کہ آباد نے ریگولرائزیشن کے لیے سمری سابق گورنرسندھ کو بھیجی تھی لیکن اسے کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔سابق گورنر سمری منظور کردیتے تو نسلہ ٹاور کا سانحہ پیش نہ آتا۔
چیئرمین آباد نے کہا کہ پنجاب میں این او سی جلد منظور ہوجاتی ہے لیکن سندھ میں این او سی منظور نہیں ہوتی۔ بحریہ ٹاؤں کو جلدی این او سی دی جاتی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ یکساں پالیسی اختیار کی جائے۔ایس بی سی اے نے ایک سال میں صرف 120 نقشے پاس کیے ہیں۔
انھوں نے گورنرسندھ سے مطالبہ کیا کہ شہر میں رکی ہوئی تمام این او سی جاری کی جائیں۔الطاف تائی نے کہا کہ کراچی میں کچی آبادیوں کا تناسب 52 فیصد ہے۔ کراچی کاسموپولیٹن سٹی ہے یہاں سے کچی آبادیوں کو ختم کرنا چاہیے۔کراچی شہر میں 12 لاکھ گھروں کی کمی ہے،حکومت تعاون کرے تو کچی آبادیاں ختم کرکے مکینوں کو معیاری رہائش کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی مالی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔شہر بھر میں غیر قانونی تعمیرات اور قبضہ مافیا نے تعمیراتی شعبے کو تباہ کردیا ہے۔قبضہ مافیا سرکاری کھاتوں میں خورد برد کرکے زمینوں پر قبضے کررہی ہے۔
الطاف تائی نے کہا کہ تعمیراتی مال کی کارٹلائزشن ختم کی جائے،بار بار سیمنٹ اور سریا کی قیمتوں میں اضافے سے تعمیراتی منصوبے متاثر ہورہے ہیں۔ خام مال سستا ہونے سے سیمنٹ کی قیمت میں کمی ہونی چاہیے، عالمی مارکیٹ میں کوئلے کی قیمت 4 سوڈالر سے کم ہوکر 2 سوڈالر ہوگئی لیکن پھر بھی سیمنٹ کی قیمت میں کمی نہ آسکی۔چیئرمین سیلانی ویلفیئر بشیر احمد فاروقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔انھوں نے کہا کہ تعمیراتی منصوبوں کی زیادہ سے زیادہ این او سیز جاری ہونی چاہیے تاکہ روزگار فراہم ہو اور جرائم میں کمی آسکے۔
انھوں نے کہا کہ اگر شہر میں فلاحی ادارے نہ ہوتے تو جرائم او خودکشی کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوجاتا۔انھوں نے کہا کہ نسلا ٹاور کے معاملے پر آرمی چیف سے بھی ملاقات کرکے مسماری رکوانے کی کوشش کی مگر افسوس مسئلہ حل نہ ہوسکا۔
اس موقع پر آباد کے وائس چیئرمین ندیم یوسف جیوا نے گورنرسندھ سے تشکر کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ آپ کی آباد ہاؤس آمد سے ہماری زمینوں پر قبضوں کا سلسلہ رک جائے گا۔