نظریہ ضرورت جن لوگوں کے کام آتا ہے وہ ہر شے کو اپنی ضرورت کے حساب سے تولنے لگتے ہیں – جنرل پرویز مشرف صاحب کو تو آپ جانتے ہی ہیں ، جنرل صاحب ضروریات کے تحت لوگوں کو استعمال کرنے سے اچھی طرح واقف ہیں-
افغان جنگ کے دوران اپنی ضرورت اور امریکا کو بلیک میل کرنے کے لئے سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت بنوائی ، اپنی ضرورت کی خاطر شوکت عزیز کو امپورٹ کیا ، اپنے مقاصد کے حصول کے لئے پیپلز پارٹی کا فارورڈ بلاک بنایا ، اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ایم کیو ایم کو استعمال کرتے رہے۔
جنرل صاحب خوش فہمیوں کا شکار بھی رہتے ہیں ، فیس بک پر ٢ لاکھ فالورز ہو گئے تو انھیں لگا کہ وہ الیکشن جیت جائیں گے اور وہ پاکستان آ گئے ، یہ اور بات کہ ایئر پورٹ پر انھیں لینے ٢ درجن لوگ ہی آئے یہ بھی موضوع نہیں کہ کس طرح جناب عدالت میں پسینے بہاتے رہے اور پھر بھلا ہو اس دل کا جس میں درد ہوا اور ان کے جانے کی سبیل بنی اور سلامت رہے وہ کمر جو یہاں درد کا شکار تھی لیکن دبئی میں مٹکتی رہی اور اسی کمر نے ان کے جانے کی راہ ہموار کی — ایم کیو ایم زیرعتاب آئی تو انھیں لگا کہ ان کی لاٹری لگ جائے گی اور مہاجر انھیں اپنا سر پرست اعلی مان لیں گے۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ چاہتے ہیں کہ تمام لوگ ان کی ضروریات پوری کریں ، لیکن آج وہ اس ضرورت کو باہمی سمجھتے ہیں…. اب کی بار مشرف صاحب کو یہ غلط فہمی ہے کہ مہاجروں کو ان کی زیادہ ضرورت ہے—- ان کی شدید ترین خواہش ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو اپنی جیب میں رکھتے ہوئے اے پی ایم ایل کی سرگرمیاں بحال کریں- کم از کم ان کے پاس ایک ایسی جماعت تو ہوگی جو عوامی طاقت رکھتی ہو— اس کے لئے وہ اپنی “کرشمہ ساز” شخصیت پیش کرتے ہیں ، اپنا نام نہیں لیتے لیکن سب کچھ کہہ جاتے ہیں — فرماتے ہیں کہ الطاف حسین کے بعد مہاجروں کے پاس ایسی کوئی کیرزمیٹک (کرشمہ ساز) شخصیت نہیں جو انھیں جوڑ کے رکھ سکے۔
جنرل صاحب کہتے ہیں کہ ان کے دور میں کراچی کا نقشہ بدل گیا ، ہم اسے تسلیم کرتے ہیں لیکن ہمیں وہ آدمی بحیثیت لیڈر قبول ہے جس نے جنرل مشرف کو کراچی کا نقشہ بدلنے کیلئے مصطفیٰ کمال دیا ، وہ مشرف قبول نہیں جس نے مصطفیٰ کمال کو کام کرنے کے لئے پیسے دیے—- جنرل صاحب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مہاجروں کو نظریہ ضرورت کی گود میں بیٹھا کوئی آمر نہیں بلکہ ان کے حقوق کے تحفظ کا نظریہ دینے والا قبول ہے— ہمارے لئے کرشمہ ساز وہ ہستی ہے جس نے ہمیں ایک کیا ہے ، جس نے ایک بدترین فوجی آپریشن کے بعد آپ جیسے آمر کو بھی مجبور کیا کہ ہم سے بات کی جائے– ہم غیرتمند لوگ ہیں ہم ایک آدمی کی جدوجہد کو یوں کسی کی جھولی میں نہیں ڈال سکتے–آپ کے خیر خواہ کتنا ہی زور لگا لیں ، چاہے کتنی ہی محنت کرلیں لیکن ہم نہیں جھکیں گے… ہم انتظار کر لیں گے ، عذاب سہہ لیں گے، جبر برداشت کر لیں گے لیکن آپ کو مسیحا تسلیم نہیں کریں گے– ہم آپ کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر آپ ہمارے سر پر مسلط ہونا چاہتے ہیں تو انتہائی معذرت آپ کوئی اور مہم جوئی کیجئے ، ہم با شعور اور با وفا لوگ ہیں– ہماری نفسیات “نان ہے تو جہان ہے” والی نہیں …ہم قیمے والے نان پہ ووٹ نہیں دیتے نہ ہی ہم وہ لوگ ہیں جنھیں جہاں جی چاہا ہانک دیا—- نون نہیں تو قاف سہی، قاف نہیں تو انصاف سہی —
اگر آپ ظرف رکھتے ہیں تو دنیا کو آ کر بتائیں کہ ایم کیو ایم اور الطاف حسین را کے ایجنٹ نہیں ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ١٠ سال افواج پاکستان کا ساتھ دیا ، اگر یہ را ایجنٹ ہیں تو یہ بحیثت آرمی چیف آپ کے اوپر بھی ایک سوالیہ نشان ہے ، آپ اتنی آسانی سے دامن نہیں بچا سکتے ، اتنی آسانی سے مہاجروں کی سرپرستی کے خواب نہیں بن سکتے … آپ کو جواب بھی دینا ہوگا اور اگر یہ را ایجنٹ ہیں تو ان کا ساتھ دینے کا حساب بھی دینا ہوگا— اگر الطاف حسین کے لئے راستہ دشوار ہے تو اتنا آسان سفر آپ کے لئے بھی نہیں ہوگا— ان مہاجروں نے ہندوستان سے پاکستان لے لیا تھا آپ سے جواب و حساب تو بہت آسانی سے لے لیں گے !
آپ کو اپنا تمام تر کرشمہ اور تجربہ مبارک ، آپ اپنا کرشمہ رکھ لیجئے ہم اپنا نظریہ رکھ لیتے ہیں— ہمیں منزل کے نشاں دکھانے والا رہنما زیادہ عزیز ہے ، ہمیں اسی کی رہنمائی درکار ہے– ہمارا رہبر و رہنما ایک ہی ہے اور وہی ہمیں منزل تک لے جائے گا ،ہم خاندانی لوگ ہیں جسے دل میں بسا لیں اسے کسی کے کرشمے سے متاثر ہو کر یا حالات سے ڈر کر دل سے نکالا نہیں کرتے — ہمارے بارے میں تو صدیوں پہلے نظیر اکبرآبادی کہہ گئے تھے : :
ترے مریض کو اے جاں شفا سے کیا مطلب
وہ خوش ہے درد میں اس کو دوا سے کیا مطلب
جو اپنے یار کے جور و جفا میں ہیں مسرور
انہیں پھر اور کے مہر و وفا سے کیا مطلب
فقط جو ذات کے ہیں دل سے چاہنے والے
انہیں کرشمہ و ناز و ادا سے کیا مطلب