Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the wordpress-seo domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/zarayeco/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
الیکشن یا اساتذہ ذلت، تحریر: سیدہ عبیرہ حسین |

الیکشن یا اساتذہ ذلت، تحریر: سیدہ عبیرہ حسین

اگلے ماہ 25 جولائی 2018 کو الیکشن کا اعلان ہوتے ہی استادوں کی شامت آگئی ایک طرف تو گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان ہوتے ہی رمضان کی آمد اور دوسری طرف انٹر میڈیٹ کے امتحانات جو پورے رمضان کے آخر تک چلے تین روزہ عید کی چھٹی گزار نے کے بعد الیکشن ٹرینگ کا بم پھوٹا اور تمام استادوں کو آبادی سے بہت دور دراز علاقے میں ٹریننگ کئے بلایا گیا۔

تین روزہ ٹرینگ پروگرام میں اعلان تو یہ بھی تھا کہ آنے والے اساتذہ کو کھانا فراہم کیا جائے گا پر ہوا اس کے برعکس نا جانے وہ کون سے جنات تھے جو اساتذہ کیلئے آنے والا کھانا کھا گئے یہاں بہت سی چیزیں بالکل اس انداز میں ہوتیں ہیں جیسے نقشہ جس میں بہت کچھ دکھتا ہے پر ہوتا نہیں۔

اس بار ہونے والے الیکشن میں جو چیز سب سے زیادہ دیکھنے کو ملی ہے وہ ہے ججز کا بے جا اپنے اختیارات کا استعمال، استاد ہر قوم کے معمار ہوتے ہیں پر استادوں کو جانوروں کی طرح ادھر سے ادھر قطاروں میں دھکے کھانے کیلئے بلانا اور 17 گریڈ کے ججز کی 19 اور 20 گریڈ کے اساتذہ سے بدسلوکی بہت بری بات ہے۔

جو استاد قوم کو لکھنا پڑھنا سکھاتے ہوں انہیں قطاروں میں لگا کر برے طریقے سے بات کرنا بالکل بھی مناسب نہیں کیا ججز اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کر رہے کسی کو علم نہیں تھا کہ گرمی کی تعطیلات میں انکی الیکشن میں ڈیوٹی آجائے گی اب اگر کوئی شخص ملک سے یا شہر سے باہر ہو تو اس پر نوٹس جاری کئے جانا نا انصافی نہیں؟ جسکی سزا دو سال قید یا 30 ہزار جرمانہ ہوسکتی ہے۔

ایسے میں یا تو اساتذہ کی چھٹیاں منسوخ کر دینی چاہیے تھیں پر ایسا کرنے کے بجائے پرنسپل کو حراساں کیا جا رہا ہے کہ اپنے استادوں کو واپس بلائیں کیا یہ سب کچھ اساتذہ کے ساتھ زیادتی نہیں کہاں ہیں حقوق انسانیت کے علمبردار جو قوم کے معماروں سے بدسلوکی پر آواز نہیں اٹھا تے۔


نوٹ: قلم کار کے ذاتی خیالات اور صارفین کے کمنٹس سے ادارے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔