سیدھی بات,نو بکواس….!
علی سجاد شاہ المعروف ابوعلیحہ گزشتہ سال اکتوبر 29 کی رات 8بجکر ایک فیس بک اسٹیٹس اپلوڈ کرتے ہیں کہ وہ سخت بیمار ہیں اور بیڈ ریسٹ پر ہیں… اسی رات وہ ایک اور اسٹیٹس اپلوڈ کرتے ہیں جو کہ ایک معروف اینکر پرسن کے ٹوئیٹ کا اسکرین شاٹ ہے جس میں وہ انہیں صحت یابی کیلئے خوش کُن کلمات پیش کررہی ہیں. پھر اسی رات وہ اپنے اسٹیٹس پر معروف شاعر محترم عمیر نجمی کی غزل کے چند اشعار پیش کرتے ہیں. جس کا آخری شعر ہوتا ہے…
ہمیں جلا کے کوئی شب گزار سکتا ہے..
سڑک پہ بکھرے ہوئے کاغذات ہیں ہم لوگ…
29اور30اکتوبر کی درمیانی شب علی سجاد کی یہ اسیٹٹس اپلوڈ کرکے غائب ہوجاتے ہیں.. دو دن بعد ان کے ایک دوست ان کی غیر حاضری کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہیں اس کے بعد بس ایک ہی غوغہ اٹھتا ہے… علی سجاد شاہ کو ریاستی اداروں نے دھرلیا…. مگر کس جرم میں؟ کیا ایم کیو ایم نظریہ کا حامی ہونے کے جرم میں, یا ریاستی اداروں پر کھلم کھلا تنقید؟
خیر چند دن مزید ان کے احباب جن میں سے بیشتر ان کے فین اینڈ فیس بک فالورز ذہنی اذیت کے ساتھ ان کی تلاش میں گزارتے ہیں… اپنے اپنے اثرورسوخ استعمال کرتے ہیں… چہ پدی چہ پدی کا شوربہ… اگر کوئی اٹھاتا تو پتا چلتا… !
ہاں یہ ضرور تھا کہ وہ خود اپنے بستر استراحت سے اٹھ کر ” پنڈ” چلے گئے ہوں… خیر ان کی “غیراعلانیہ” کے دوران کچھ باتیں سننے میں آئیں کہ علی سجاد غبن کرکے فرار ہوگئے ہیں وغیرہ وغیرہ… ارے بھئی ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ وہ کسی کے ساتھ غبن کرکے فرار ہوئے یا عشقیہ وعدے کرکے… ہم تو تالی دو ہاتھ سے ورنہ کم از کم سوا ہاتھ سے بجنے کے قائل ہیں… خیر وہ غائب ہوئے… اور 10ماہ مکمل کرکے ایک دم منظر عام پر آگئے ہیں… الیکشن کے فوری بعد… امید ہے ان کی متحدہ مجلس عمل کی الیکشن مہم کامیاب رہی ہوگی…!
ان کا دعویٰ ہے کہ وہ 28جولائی 2018کی رات اداروں کی قید سے رہا ہوئے اور فلائٹ پکڑ کر سیدھا اسلام آباد پہنچے ہیں… انہوں نے اپنی ایک عدد پی آئی اے کے جہاز میں بیٹھ کر لی گئی تصویر بھی فیس بک وال پر لگائی ہے جس میں وہ کافی لاغر اور کمزور نظر آرہے ہیں…
موصوف کی مسٹنڈی گردن سوکھ گئی جبکہ چہرہ بھی” کثرت ِ عتاب نوشی” سے ڈھلک چکا ہے… خیر موصوف دعویٰ کرتے ہیں وہ 28اور29جولائی کی رات کراچی سے اسلام آباد پہنچے ہیں…
اس حوالے سے وہ 29 جولائی کی دوپہر اپنے فیس بک اکاونٹ پر اسٹیٹس اپلوڈ کرتے ہیں.. ہر طرف ایک شور اٹھ جاتا ہے.. دیکھو دیکھو کون آیا… !!!
خیر اسی دن یعنی 29 جولائی کے دن معروف سوشل میڈیا ایکٹی وسٹ کے ساتھ ملاقات کے دوران لی گئی تصویر بھی فیس بک پر نظر آتی ہے… دونوں تصاویر میں موصوف کے حلیے میں یکدم زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے… جہاں علی سجاد کسی اجڑے چمن کی طرح ایکسپو سینٹر کراچی کے ساتھ کھڑے پی آئی اے کے نمائشی طیارے میں تن و تنہا بیٹھ کر پوز دے رہا ہے وہیں 12 گھنٹے بعد اپنے دوست کے ساتھ اسلام آباد میں بیٹھ کر انتہائی فریش حال فوٹو شوٹ کروا رہا ہے…
اب کل ملا کر بات یہ ہے کہ یہ آدمی جس کی مالی غبن میں کئی لوگوں کو تلاش رہی ہے ان سے بچنے کیلئے حربے استعمال کرے گا… جس میں سے سب سے آسان حربہ ” میں اٹھا لیا گیا تھا” کا بہانا ہے… قصہ مختصر یہ آدمی پہلے بھی کراچی والوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر ان کے جذبات سے کھیل گیا… اب پھر شہرت کے نشے سے ٹوٹتے بدن کے ساتھ نئی کہانی کے ساتھ اپنی ” عجوبہ تصاویر ” لئے وارد ہوا ہے…
ہم نے اس کی تصاویر کی “ڈیجیٹل فرانزک ٹیسٹ” کئے تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ تصاویر درحقیقت کب اور کتنے دن پہلے لی گئی ہیں… ہم اپنی کوشش میں کامیاب رہے, ملنے والی تفصیلات کے مطابق جس تصویر میں بندہ پُر تقصیر جہاز میں پدھارے ہے وہ بروز منگل 3 جولائی 2018 شام 4 بجکر 36 منٹ پر لی گئی ہے جبکہ دوسری جو سوشل میڈیا ایکٹی وسٹ کے ساتھ ہے وہ اتوار 22جولائی 2018 دوپہر 12بجکر 23منٹ پر لی گئی ہے… جو 29 جولائی 2018 کو منظر عام پر آئی ہیں۔۔۔
تصاویر کی ڈیٹیل اور تصاویر کے “گریب امیجز ” اس پوسٹ کے ساتھ منسلک ہیں۔۔۔
بس اس ساری محنت کا مقصد اس مہاجر طبقے کو ایسے بدعنوان افراد کے متعلق آگاہ کرنا ہے جو ذرا سی ہمدردی دکھانے والے پر دل و جان سے صدقے واری ہوجاتے ہیں یہ جانے بنا کہ ” سامنے والے کا ایجنڈا کیا ہے؟” اور پھر مالی و جذباتی اور بعض اوقات جسمانی نقصان بھی اٹھاتے ہیں…
جان رکھئے کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا… اپنا خیال رکھئے… اور آگاہ رہئے بھی اور کرتے بھی رہئے…!
ایک کراچی والا… والسلام
یہ تحریر ہمدوش علیگ کی فیس بک وال سے لی گئی ہے
نوٹ: قلم کار کے ذاتی خیالات اور صارفین کے کمنٹس سے ادارے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔