پاکستان میں پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت چار روز کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو قومی احتساب بیورو کے چیئرمین چوہدری قمر زمان اپنے پراسکیوٹر جنرل وقاص نذیر ڈار کے ساتھ سپریم کورٹ کے احاطے میں آئے اور اس کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کے قائم مقام چیئرمین محمد ارشاد بھی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ پاناما کیس سے متعلق عدالت کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے سپریم کورٹ پہنچے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان عدالتی کارروائی دیکھنے کے لیے اپنے لشکر کے ساتھ سپریم کورٹ کے احاطے میں پہنچے تو وہاں پر موجود صحافیوں نے اُن سے استفسار کیا کہ ’خان صاحب آج آپ مایوس دکھائی دے رہے ہیں، جس پر عمران خان نے ہنس کر جواب دیا کہ ’میں اور مایوس، یہ نہیں ہو سکتا۔‘
’معاونت نہ کرنے پر ایف بی آر کا شکریہ‘
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جب ان درخواستوں کی سماعت شروع کی تو سب سے پہلے ایف بی آر کے قائم مقام چیئرمین محمد ارشاد کو طلب کیا اور استفسار کیا کہ اُنھوں نے پاناما لیکس پر کیا کارروائی کی ہے جس پر ایف بی آر کے حکام کا کہنا تھا کہ نوٹسز تو جاری کردیے ہیں، جوابات بھی آگئے ہیں اور ان پر تصدیق کا عمل جاری ہے۔
بینچ میں موجود جسسٹ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ آف شور کمپنیوں کے جو مالکان بیرون ملک مقیم ہیں کیا اُن کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی ہیں۔ اس پر ایف بی آر کے حکام کا کہنا تھا کہ چھ ماہ سے وزارت خارجہ سے رابطے میں ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر اور وزارت خارجہ کے دفاتر کے درمیان دو سو میڑ کا فاصلہ ہے اور اُنھیں یہ فاصلہ طے کرنے میں چھ ماہ لگ گئے، ایسا اعزاز آپ کو مبارک ہو۔ اُنھوں نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے کوائف ایک گھنٹے میں معلوم کیے جاسکتے ہیں۔
ایف بی آر کے حکام نے اس بات کو تسلیم کیا کہ پاناما لیکس کے بعد فوری اقدامات نہیں کیے گئے۔
بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر نے اس معاملے میں عدالت کی کوئی معاونت نہیں کی جس پر وہ اُن کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ایف بی آر کے حکام خاموشی سے ایک طرف کھڑے ہوگئے۔

نیب کے چیئرمین سے کڑے سوالات
عدالت نے چیئرمین نیب سے استفسار کیا کہ اُنھوں نے پاناما لیکس کے آنے کے بعد کارروائی کیوں نہیں کی جس پر چوہدری قمر زمان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ گذشتہ برس ستمبر میں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں اٹھایا گیا تھا۔ اُنھوں نے کہا اگر کوئی ’ریگولیٹر‘ رابطہ کر کے کارروائی کے لیے کہتا ہے تو پھر ہی اس پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔
بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ریگولیٹر کون ہے اور اس کا ذکر کہاں سے آگیا کیونکہ نیب کے قوانین چیئرمین نیب کو کارروائی کا اختیار دیتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ریگولیٹر کہیں وہ تو نہیں جنہوں نے نیب کے چیئرمین کو تعینات کیا ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی مشاورت کے بعد ہی چیئرمین نیب کا تقرر کرتے ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب کے خلاف کارروائی آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت اسی طرح ہی ہوسکتی ہے جس طرح اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف ہوتی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کے خلاف کارروائی اُنھیں تعینات کرنے والے افراد بھی نہیں کرسکتے۔
ان درخواستوں کی سماعت کے دوران جب وقفہ ہوا تو ایف بی آر کے قائم مقام سربراہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کمرہ عدالت سے چلے گئے۔ چلتے چلتے وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہے تھے کہ’شکر ہے بچت ہوگئی ہے ورنہ میں تو بہت ڈرا ہوا تھا۔‘
’کوئی ایسا نہیں جو جھوٹ نہ بولتا ہو‘
سماعت کے دوران وقفے کے بعد جب اٹارنی جنرل اشتر اوصاف عدالت کے دائرہ سماعت کے بارے میں دلائل دے رہے تھے تو اس دوران بینچ میں موجود جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو جھوٹ نہ بولتا ہو۔ اُنھوں نے کہا کہ اپنی بیوی سے جھوٹ بولنا معمول کی بات ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ وہ بیوی کو فون کرکے کہتے ہیں کہ وہ گھر آرہے ہیں اور وہ راستے میں ہیں جبکہ اس وقت وہ آفس میں بیٹھ کر ٹیلی فون کر رہے ہوتے ہیں۔
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ صرف غیر شادی شدہ لوگ جھوٹ نہیں بولتے۔ اُنھوں نے شیخ رشید کا نام لیے بغیر کہا کہ اس وقت کمرہ عدالت میں بھی ایک ایسا ہی شخص موجود ہے جس پر زوردار قہقہہ بلند ہوا۔
اٹارنی جنرل دلائل دینے کے لیے زیادہ وقت روسٹم پر کھڑے نہ ہوسکے اور اُنھوں نے ججوں کی اجازت سے بیٹھ کر دلائل دیے۔ عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اشتر اوصاف کے لیے اپنی نشت خالی کردی۔
پاکستان تحریک انصاف نے پاناما لیکس سے متعلق مزید دستاویزات بھی جمع کروا دیں جبکہ اس کے جواب میں وزیر اعظم اور ان کے بچوں نے بھی درخواست دائر کر دی کہ اگر ان دستاویزات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا تو پھر اس کے جواب کے لیے اُنھیں آٹھ ہفتوں کی مہلت دی جائے۔
بینچ کے سربراہ نے جب اس بارے میں مزید دستاویزات کو لینے سے معزوری ظاہر کی تو کمرہ عدالت میں موجود عمران خان کے چہرے پر حد سے زیادہ سنجیدگی چھا گئی جبکہ حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمان کے چہروں پر خوشی نمایاں تھی۔