صاحب کے بیٹے کا پرچہ، اساتذہ کی عزت تار تار، قانون خاموش: تحریر عمیر دبیر

سیانوں کا کہا ہر دور میں کسی نہ کسی صورت سچ ثابت ہوتا دکھائی دیتا ہے، کبھی کسی دور میں کوئی کہہ گیا کہ “نقل کے لیے عقل” کی ضرورت ہوتی ہے تو شاید یہ بات اُس وقت کے لوگوں کو ہضم نہ ہوسکی ہوں مگر آج کے دور میں یہ صادر ہوتی نظر آرہی ہے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب وفاقی اردو یونیورسٹی میں آج سے تین سال قبل جب میں پرچہ دے رہا تھا تو کلاس ٹیچر نے نقل کرنے پر ایک بچے سے کاپی چھیننے کی کوشش کی جب پر طالب علم نے مزاحمت کی اور اُن سے معذرت بھی کی تاہم ٹیچر نے وہاں موجود ٹیم کو مطلع کیا جس کے بعد ہمارے کمرہ امتحان میں دو مستعدد رینجرز کے نوجوان اور ایک سینئر ٹیچر داخل ہوئے۔

وفاقی اردو یونیورسٹی کے سیئنر استاد نے داخل ہوتے ہی کلاس ٹیچر سے تفصیل پوچھنی شروع ہی کی تھی کہ سنسان کمرے میں تپڑ کی زوردار آواز گونجی اور دو مستعدد اہلکاروں نے اُس طالب علم سے پرچہ چھین کر خوب اُس کی دھرگت بنائی جو بننے بھی چاہیے تھی، ساتھ ہی اُس کی رجسٹریشن ختم کرتے ہوئے طالب علم کو تین سال تک پرچہ نہ دینے کی سزا کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

اس ساری کارروائی کے بعد جب طالب علم کلاس سے باہر چلا گیا تو ٹیچر نے کاپی چیک کی تو اُس میں وہ سوال تھا ہی نہیں جس کا پرچہ برآمد کیا گیا تھا، جس پر انہیں افسوس ہوا مگر خیر غلطی تھی تو طالب علم کو اُس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا، اُس کے بعد بقیہ پرچوں میں سختی کا یہ عالم تھا کہ تحریر میں ڈھکے چھپے الفاظ کے ساتھ بھی بیان نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مستعدد نوجوان مرکزی دروازے سے کلاس میں داخل ہونے تک چار مقامات پر ایسی ایسی جگہ ہاتھ ڈال کر تلاشی لیتے تھے۔

کراچی میں جاری انٹرمیڈیٹ بورڈ کے پرچوں میں زبردستی نقل کروانے اور پیپر وقت سے پہلے لیک ہونے کی خبریں زیر گردش تھیں کہ اسی دوران سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو نے تہلکہ مچادیا کیونکہ یہ غیرمعمولی ویڈیو تھی۔

پریمئر کالج میں جاری انٹرمیڈیٹ کے پرچے میں عمران آفریدی نامی سادہ لباس (رینجرز اہلکار) اپنے بیٹے کو نقل کروانے کے لیے تعارف کرواکے کمرہ امتحان تک پہنچا اور معاشرے میں والدین کا رتبہ پانے والے اساتذہ سے بیٹے کو نقل کی سہولت دینے کے لیے قائل کرنے لگا۔

اسی دوران وہاں موجود ایک ٹیچر نے اپنا موبائل فون ہاتھ میں لیا اور ویڈیو بناتے ہوئے اہلکار کے پاس گیا نام دریافت کیا جس پر اُس نے اپنا نام عمران بتاتے ہی بدمعاشی دکھائی اور ٹیچر کو تھپڑ رسید کر کے موبائل چھیننے کی کوشش کی تاہم وہاں موجود دیگر عملے نے اہلکار کو پکڑا تو اسی دوران اہلکار کے ساتھ آنے والے بچے بھی ٹیچرز پر تشدد کرنے لگے۔

بات پھیلی تو ایس ایس پی سینٹرل مقدس حیدر نفری کے ہمراہ امتحانی مرکز پہنچے اور اہلکار کو حیدری تھانے منتقل کیا جہاں رات گئے افسران بالا نے آکر تصدیق کی کہ تھانے میں روکا جانے والا اور امتحانی مرکز میں موجود شخص رینجرز کا افسر ہے تاہم بات چیت کے بعد اس شخص کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا اور اُسے رہائی دے دی گئی۔

بعد ازاں ترجمان رینجرز نے تصدیق کی کہ اہلکار نے لڑائی میں دخل اندازی کی جس پر اُس کے خلاف تحقیقات ہوگی اور اگر وہ ملوث پایا گیا تو محکمہ جاتی کارروائی کا سامنا کرے گا (جیسے ماضی میں کرپشن ، ماورائے عدالت ) پر کیا جاتا ہے، مگر مجال ہے جو صاحب نے اپنے رویے پر معافی مانگی ہو یا پھر نقل کروانے پر اُس کے خلاف کوئی پرچہ کاٹا گیا ہو۔

دوسری طرف اسکول انتظامیہ یا پھر انٹرمیڈیٹ بورڈ نے عمران کے بیٹے کی رجسٹریشن منسوخ نہیں کی اور نہ ہی اُسے کلاس سے بھگایا بلکہ اُس نے پیپر دیا، انصاف کے معیار کو اونچا دکھانے کے لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ متعلقہ طالب علم کو نہ صرف کلاس سے آٓؤٹ کردیا جاتا بلکہ اُس کو اگلے 5 سال تک پرچے دینے کے لیے نااہل قرار دیا جاتا۔

سندھ حکومت اور کراچی کی نمائندہ جماعتیں بھی اس پر خاموش نظر آئیں کسی کے منہ سے تف تک نہ نکلا، انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ ملوث اہلکار کے خلاف مقدمہ درج کیا جانا چاہیے اور اُس کو چھڑوانے کے لیے آنے والوں کے خلاف سہولت کاری ایکٹ کے تحت 7 اے ٹی اے کی دفعات کے تحت پرچہ کاٹنا چاہیے۔

نیشنل ایکشن پلان کے بعد اب باری ہے ردالفساد کی اور یہی اچھا موقع ہے کہ کراچی میں رینجرز کے غلط تاثر کو ختم کرتے ہوئے اہلکار کو کڑی سزا دی جائے تاکہ لوگوں کو یقین آسکے کہ کراچی آپریشن بلاامتیاز کیا گیا اور انصاف کے تقاضے بھی پورے کیے گئے ورنہ عوام کے دماغوں میں اٹھنے والے سوالات کو کئی نہیں روک سکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں: