بہاولنگر واقعہ، معاملہ حل ہونے کے باوجود سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا گیا، پاک فوج

پاک فوج کے ترجمان نے بہاولنگر میں دو فریقین کے درمیان پیش آئے واقعے کو افسوسناک قرار دے دیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ  حال ہی میں بہاولنگر میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، جس کو فوج اور پولیس حکام کی مشترکہ کوششوں سے فوری طور پر حل کیا گیا۔

آئی ایس پی آر نے کہا کہ معاملہ حل ہونے کے باوجود، مخصوص مقاصد کے حامل بعض افراد نے ریاستی اداروں اور سرکاری محکموں کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا شروع کر دیا۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ  سیکیورٹی اور پولیس اہلکاروں پر مشتمل مشترکہ شفاف انکوائری اور اختیارات کا غلط استعمال یا قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کی تحقیقات بھی کی جائیں گی۔

واضح رہے کہ چند روز قبل بہاولنگر کے تھانہ مدرسے میں اچانک پاک فوج کے جوانوں کی آمد ہوئی جہاں انہوں نے ایس ایچ او سمیت دیگر اہلکاروں پر تشدد کیا اور انہیں حراست میں لے لیا تھا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ فوج نے تھانے کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا تھا۔

واقعہ کیا ہے؟

تھانہ مدرسے کی پولیس نے چک سرکاری میں محمد انور جٹ نامی شہری کے گھر پر 8 اپریل کو چھاپہ مارا، جس پر اہل خانہ نے مزاحمت کی اور اہلکار کو یرغمال بنایا، جس کے بعد اطلاع ملنے پر تھانہ مدرسہ کے ایس ایچ او رضوان عباس دیگر اہلکاروں کے ہمراہ موقع پر پہنچے۔

وہاں پر انہوں نے چادر اور چار دیواری کو پامال کرتے ہوئے خواتین سمیت گھر میں موجود تمام افراد پر تشدد کیا تو اسی دوران انور جٹ کے بیٹے محمد خلیل نے اہل محلہ کے ہمراہ ایس ایچ او کو کمرے میں بند کر کے ویڈیو بنائی۔

ایس ایچ او کے یرغمال بننے کی اطلاع ملنے پر پولیس کی مزید نفری موقع پر پہنچی اور یرغمال اہلکاروں و افسران کو بازیاب کروایا جس کے بعد انور جٹ، بیٹے و آرمی ملازم محمد خلیل، اے این ایف ملازم ادریس سمیت دیگر کے خلاف مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کر کے تھانہ مدرسہ منتقل کیا۔

مدعی مقدمہ کے مطابق ایس ایچ او اور نفری نے گرفتار تمام افراد کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور میڈیکل رپورٹ بھی آنے سے روکی جبکہ انہیں عدالت میں پیش کرنے کے بجائے غیر قانونی حراست میں رکھا۔

پھر دس اپریل کو آرمی کے جوان بڑی تعداد میں ڈی ایچ کیو اسپتال پہنچے جہاں انہوں نے پہلے سے موجود پنجاب پولیس کے اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اہلکاروں سمیت ڈاکٹرز کو اپنے ہمراہ لے گئے۔

پھر پاک فوج کے اہکاروں کی بھاری نفری نے تھانہ سٹی اے ڈویژن کا کنٹرول سنبھالا اور ایس ایچ او رضوان عباس، اے ایس آئی سمیت دیگر اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

واقعے کی اطلاع ملنے پر ڈی پی او نصیب اللہ، ڈپٹی کمشنر کے ہمراہ تھانے پہنچے اور مذاکرات کیے جس پر آرمی کے جوان گاڑیوں میں واپس روانہ ہوگئے۔ پھر پنجاب پولیس کے زخمی افسران و اہلکاروں کو اسپتال منتقل کیا گیا۔

اس کے بعد آر پی او بہاولنگر، ڈی پی او نے ڈپٹی کمشنر کے ہمراہ 57 بریگیڈ کے کمانڈر سے ملاقات کر کے معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کروایا۔

تمام تر معاملے کو طے کرنے کے بعد مذکورہ افسران ڈسٹرکٹ ہسپتال پہنچے اور زخمیوں کی عیادت کی۔ جس کے بعد معاملات خوش اسلوبی سے حل ہوئے اور پھر پنجاب پولیس نے پریس ریلیز بھی جاری کی۔ پولیس اعلامیے میں بتایا گیا کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن کی گئی ہے اور معاملے کو خوش اسلوبی سے طے کرلیا گیا ہے۔

ایس ایچ او، اے ایس آئی سمیت دیگر اہلکار گرفتار

اس کے بعد غیر قانونی حراست اور چھاپہ مارنے پر ایس ایچ او رضوان عباس اور اے ایس آئی سمیت دیگر اہلکاروں کو معطل کر کے نئے ایس ایچ او کو تھانہ مدرسہ تعینات کیا گیا جن کی مدعیت میں مقدمہ اندراج کے بعد مقدمے میں نامزد تمام اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے بعد ڈی پی او کی ہدایت پر ایس ایچ او، اے ایس آئی نعیم سمیت دیگر کو معطل بھی کردیا گیا۔

مقدمہ نئے ایس ایچ او سیف اللہ حنیف کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں: